-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 7
/
0036.xml
42 lines (42 loc) · 22.8 KB
/
0036.xml
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
<document>
<meta>
<title>پنڈتا رامابائی:سماجی مصلح اور بائبل کی پہلی خاتون مترجم</title>
<author>
<name>پنکی جسٹن</name>
<gender>Female</gender>
</author>
<publication>
<name>Bunyad, Volume 4</name>
<year>2013</year>
<city>Lahore</city>
<link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/18_pinki_justin_bunyad_2013.pdf</link>
<copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder>
</publication>
<num-words>1115</num-words>
<contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages>
</meta>
<body>
<section>
<p>پنڈتا رامابائی (۲۲ اپریل ۱۸۵۸ – ۵ اپریل ۱۹۲۲ئ) کا شمار ہندوستان کی ان عظیم خواتین میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے فکر سے ایسے دیپ جلائے کہ آج بھی ان کی روشنی دلوں کو منور کر رہی ہے۔ انھوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ پیدائشی طور پر اعلیٰ پائے کی منتظمہ، عالمہ، مصلح اور مبلّغہ تھیں۔ ایک مشہور سماجی مصلح <annotation lang="en">D.K. Karve</annotation> لکھتا ہے:</p>
<blockquote>
<p>پنڈتا رامابائی ہندوستان کی عظیم ترین بیٹیوں میں سے ایک تھی، بہترین ماہرِ لسانیات، مصنفہ، تعلیم دان، سماجی مصلح اور بائبل مترجم ہونے کی حیثیت سے اس نے علما، سیاست دان اور ماہرینِ الٰہیات سے بے پناہ داد وصول کی۔ ایک سچے محب وطن کی حیثیت سے وہ ہندی کو بحیثیت قومی زبان نافذ کروانے کے حق میں دلائل پیش کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔ علاوہ ازیں برطانوی راج کے بجائے مادرِ وطن کے مرتبہ و اہمیت کو اجاگر کرنے والی پہلی خاتون تھیں۔</p>
</blockquote>
<p>خواتین کے لیے پنڈتا کا کردار ایک مثالی کردار ہے۔ ظاہری طور پردیکھیں توان کا قد پانچ فٹ اور جسامت منحنی سی تھی۔ کالے بال شانوں تک آتے تھے۔ لیکن یہ برہمن ہندوستانی خاتون جہاں بھی جاتیں، اپنی سرمئی مائل سبز آنکھوں، تراشیدہ ہونٹوں اور سانولی رنگت سے ملنے والے پر ایک مسحور کن تاثر چھوڑ دیتی تھیں۔ لوگ ان کو دیوی کی طرح پوجتے تھے۔ وہ ایک ایسی بلند مرتبہ شخصیت تھیں، جنھوں نے وقت کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور مشرق و مغرب کے بندھے ٹکے رسم و رواج اور روایتی اقدارکو چیلنج کیا۔</p>
<p>پنڈتاکی پیدائش ہندوستان کے ایک برہمن خاندان میں ہوئی ان کے والد اننت شاستری ڈونگرے <annotation lang="en">(Anant Shastri Dongre)</annotation> ایک عالم فاضل شخص تھے۔ اپنے والد کے بارے میں پنڈتا لکھتی ہیں کہ میرے والد کا تعلق ایک امیر ہندو گھرانے سے تھا، انھوں نے ہندوستان کے طول و عرض میں ہزاروں میل پیدل چل کر مقدس استھانوں کی یاترا کی، پرانوں اور دیگر مذہبی کتابوں کی تعلیم حاصل کی اور پنڈت کہلائے۴ ان کے والد کا آشرم (ایک ایسی جگہ جہاں عاشقانِ مذہب اپنے ہندو عقائد کے متعلق مزید جاننے کے لیے قیام کرتے تھے) سمندر کی سطح سے چار سو (۴۰۰) فٹ اونچائی پر کارگل کے قریب مغربی گھاٹ کے جنگلوں میں تھا۔ اننت شاستری ایک اصلاح پسند اور آزاد خیال انسان تھے۔ وہ اگرچہ اپنے قول و فعل میں ایک راسخ العقیدہ ہندو برہمن تھے لیکن ایک چیز میں مستثنیٰ تھے کہ عورتوں کو اپنی مذہبی کتابوں کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کے لیے ان کی قدیم مقدس زبان سنسکرت کو لازمی سیکھنا ہوگا۔ وہ تعلیم نسواں کو ہر عورت کا بنیادی حق سمجھتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے پہلا عملی قدم اپنے گھر سے اٹھایا اور سب سے پہلے اپنی بیوی کو تعلیم دینا شروع کی اور اس کے بعد اپنی بیٹی کو۔</p>
<p>پنڈتا کی ذہانت، علمیت اور قابلیت اگرچہ خداداد تھی مگر والدین کی تعلیم و تربیت نے سونے پر سہاگہ کا کام دیا۔ ان کے والد نے ۴۰ سال کی عمر میں لکشمی بائی (والدہ پنڈتا رامابائی) سے دوسری شادی کی۔ شادی کے وقت دلھن کی عمر نو سال تھی۔ انھوں نے اپنی بیوی اور بیٹی دونوں کی تعلیم و تربیت شروع کی۔ پنڈتا کی والدہ صبح سویرے ہی انھیںجگا دیتیں اور روایتی مذہبی تعلیم دیتی تھیں۔ <annotation lang="en">Keith J White</annotation> کے بقول ان کی والدہ ان کو کھلے آسمان تلے تین گھنٹے تک مسلسل پڑھاتی رہتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد ہی یعنی بارہ سال کی عمر میں انھیں بھگوت پران کے اٹھارہ ہزار اشلوک زبانی یاد تھے۔ انھوں نے فعلیات، نباتات اور فلکیات کا علم بھی حاصل کیا۔</p>
<p>وہ مختلف زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔ <annotation lang="en">Helen S. Dyer</annotation> کے بقول پنڈتا سنسکرت زبان، جس میں ہندوؤں کا تمام کلاسیکل لٹریچر موجود ہے، اس قدر روانی سے بولتی تھیں کہ گویا ان کی مادری زبان ہو۔ انھوں نے مراٹھی زبان بھی سیکھی کیونکہ ان کے والدین مراٹھی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ علاوہ ازیں وہ اخبارات و رسائل بھی اسی زبان میں پڑھا کرتی تھیں۔ بعدازاں کنڑی <annotation lang="en">(Kanarese)</annotation> ہندی اور بنگالی زبان بھی سیکھی۔ انھیں ہندوستان کی ان تمام بولیوں پر عبور تھا جن کی بنیاد سنسکرت تھی۔ </p>
<p>پنڈتا ابھی چھوٹی ہی تھیں کہ ان کا خاندان مفلسی کا شکار ہو گیا ان کے والد صاحب کو اپنی زمینیں، قیمتی زیورات اور دیگر اہم اشیا فروخت کرنا پڑیں، اسی اثنا میں یہ اہل خانہ مقدس مقامات، مندروں اور دریاؤں کی یاترا کے لیے نکل پڑا۔ جس کے باعث بہت جلد خاندان بدحالی کا شکار ہو گیا۔ آخری وقت میں پنڈت اننت شاستری بینائی سے بھی محروم ہو گئے اوربالآخر پنڈتا کے چھوٹے بھائی کے علاوہ سارا خاندان اسی قحط سالی اور فاقہ کشی کے باعث لقمہ اجل بن گیا۔ انھوں نے اپنے بھائی کے ساتھ میلوں پیدل سفر کیا اور کلکتہ پہنچیں۔ دورانِ سفر انھوں نے عورتوں بالخصوص کمسن بیواؤں کی حالتِ زار دیکھی تو فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی پسماندہ خواتین کو معاشرے میں ان کا مقام دلانے میں وقف کر دیں گی۔ کلکتہ کا اعلیٰ برہمن طبقہ پنڈتا رامابائی کی پرانوں کے متعلق معلومات سے بے حد متاثر ہوا۔ ان کی علمیت اور ذہانت سے متاثر ہو کر کلکتہ یونیورسٹی نے انھیں ”پنڈتا“ کے خطاب سے نوازا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جن کی علمیت، قابلیت اور صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے کلکتہ یونیورسٹی کی طرف سے ”پنڈتا“ کا خطاب دیا گیا۔ سنسکرت میں پنڈتا کے معنی <annotation lang="en">(learned)</annotation> کے ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں سنسکرت میں کیے گئے بہت سارے کاموں کے اعتراف میں انھیں ”سرسوتی“ کے خطاب سے نوازا گیا۔ ان کے بھائی ان کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ وہ کلکتہ میں عین عالم شباب میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ پنڈتا کے بقول ان کی زبان پر آخری جملہ یہ تھا: <annotation lang="en">”All will be well“</annotation> خدا سب بہتر کرے گا۔</p>
<p>اپنے بھائی کی وفات کے بعد انھوں نے کلکتہ یونیورسٹی کے ایک گریجویٹ وکیل بیپن بہاری مادھوی <annotation lang="en">(Bipin Bihari Medhavi MA)</annotation> سے شادی کرلی۔ شادی کے بعد وہ انھیں صوبہ آسام لے گئے جہاں دونوں مغربی فلسفہ و خیالات کا ایک ساتھ مطالعہ کرتے اور اکثر مطالعۂ ادیان پر گفت و شنید جاری رہتی۔ رامابائی نے یہیں (عہد نامہ جدید کی کتاب) لوقا رسول کی انجیل کو بنگالی زبان میں پڑھنا شروع کیا جو ان کے شوہر کو ایک بپٹسٹ مشنری نے دی تھی جب وہ صوبہ آسام میں رہ رہےتھے۔ شادی کو ابھی ایک سال سات ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ان کے شوہر عارضہ ہیضہ میں انتقال کر گئے اور وہ اور ان کی اکلوتی بیٹی مانو راما <annotation lang="en">(Manorama)</annotation> اکیلے رہ گئے۔ اس وقت کے روایتی ومعاشرتی دستور کے مطابق ایک ہندو بیوہ اپنے شوہر کے گھر نہیں رہ سکتی لہٰذا رامابائی کو بھی کلکتہ چھوڑ کر پونا جانا پڑا۔ یہاں انھوں نے ”آریہ مہیلا سماج“ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد تعلیم نسواں اور حقوقِ نسواں کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔</p>
<p>پنڈتا نے انگریزی زبان سیکھی اور <annotation lang="en">Stree Dharma Niti (Morals for Women)</annotation> نامی ایک کتاب لکھی۔ ۱۸۸۳ئ میں وہ انگلستان چلی گئیں جہاں ان کی ملاقات مس ہرفورڈ سے ہوئی۔ انگلستان میں انھوں نے میڈیسن کی تعلیم حاصل کی۱۸۸۳ئ میں ہی انھیں سینٹ میری کی سسٹروں (ننوں) کی طرف سے <annotation lang="en">Wantage</annotation> میں مدعو کیا گیا۔ یہاں انھوں نے اپنی انگریزی زبان کو مزید بہتر بنایا اور بدلے میں سنکسرت کی تعلیم دی۔ ایک سال کا عرصہ گذارنے کے بعد وہیں <annotation lang="en">Cheltenham Ladies‘ College</annotation> میں بحیثیت سنسکرت کی پروفیسر تقرر ہوا اسی دوران انھوں نے ریاضیات، نیچرل سائنس اور انگریزی ادب کا مطالعہ کیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال کا عرصہ یہاں گزارنے کے بعد ان کی ایک جاننے والی رشتے دار آنندبائی جوشی (تاریخ وفات ۷ فروری ۱۹۸۸ئ) نے انھیں امریکہ آنے کی دعوت دی۔ امریکہ میں انھوں نے کنڈرگارٹن تعلیم کے لیے فلڈیلفیہ اسکول سے تربیت حاصل کی۔ علاوہ ازیں انھوں نے صنعتی تربیت بھی حاصل کی اور اسی باعث وہ امریکہ میں مزید تین سال مقیم رہیں۔ اس دوران انھوں نے اپنی مشہور و معروف کتاب <annotation lang="en">The High-Caste Hindu Woman</annotation> لکھی۔ یہ کتاب ۱۸۸۷ئ میں امریکہ میں شائع ہوئی اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں عورت کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کو بے باک انداز میںبیان کیا۔ اس کتاب کا دیباچہ فلڈیلفیہ وومن میڈیکل کالج کی <annotation lang="en">Dean</annotation> ڈاکٹر ریچل بیڈلے <annotation lang="en">(Rachel Bodley AM, M.D)</annotation> اور ان کے رفقا نے لکھا۔ یہ وہی خاتون تھیں جن کے ایما پر انھوں نے یہ کتاب لکھی علاوہ ازیں انھیں اس بات کے لیے راضی کیا کہ وہ ہندوستان میں اعلیٰ ذات کی عورتوں بالخصوص کمسن بیواؤں کے لیے ایک رہائشی اسکول <annotation lang="en">Radical Kindergarten System</annotation> کے تحت کھولے۔ انھوں نے مالی معاونت کی بھی یقین دہانی کروائی۔ ۸۸-۱۸۸۶ئ کے دوران انھوں نے نصابی کتابیں بھی ترجمہ کیں اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں لیکچرز بھی دیے۔</p>
<p>۱۸۸۳ئ میں بوسٹن میں انھوں نے ایک بہت بڑے مجمعے سے خطاب کیا اور یہیں سے ”رامابائی فاؤنڈیشن“ کی بنیاد پڑی جس نے ہندوستان میں یتیم بچوں اور عورتوں کے لیے تعلیم حاصل کرنے میں مدد دی۔ بورڈ آف ٹرسٹی میں ایپی سکوپل، یونیٹیرین کانگریگیشنل میتھوڈسٹ اور بپٹسٹ شامل تھے۔ لارڈ رپن <annotation lang="en">(Lord Ripon)</annotation> کے ایجوکیشن کمیشن سے خطاب کرتے ہوئے پنڈتا نے واضح کیا ”ہمارے ملک کے سو میں سے ۹۹ فیصد پڑھے لکھے لوگ عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور انھیں صحیح مقام نہیں دیتے اگر انھیں کہیں بھی ذرا سی خامی یا کمزوری نظر آ جائے تو رائی کا پہاڑ بنا دیتے ہیں اور ان کے کردار کو مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔</p>
<p>ستمبر ۱۸۸۳ئ سے فروری ۱۸۸۶ئ تک وہ ہندو اور عیسائی مذہب کے عقائد کا موازنہ اور مطالعہ کرتی رہیں اورCheltenham Ladies‘ College میں مشفق اساتذہ، دوست احباب اور پرنسپل ڈورتھی بیک (Dorothy Beak) سے بہت زیادہ متاثر ہوئی۔ اس کا تفصیلی ذکر انھوں نے اپنی گواہی (Testimony) میں کیا ہے۔</p>
<p>پنڈتا نے ایک کتاب <annotation lang="en">United States Chi Lokasthiti Ani Pravasrutta (Status of Society of United States and a Travelogue)</annotation> کے نام سے مراٹھی زبان میں لکھی، جو ان کے امریکہ میں قیام کے دوران سفری یادداشتوں پر مشتمل تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ <annotation lang="en">Pandita Ramabai's American Encounter</annotation> کے نام سے شائع ہوا اس میں انھوں نے ریاست ہائے متحدہ کے لوگوں کو اور ان کی تہذیب کو بیان کیا ہے بالخصوص وہاں کی عورت کے مقام و مرتبہ کا موازنہ ہندوستان کی عورت سے کیا اور تجویز پیش کی ہے کہ ہندوستان میں ایک ایسے مصلح کی ضرورت ہے جو ایک نیا پلیٹ فارم بنائے اور عورتوں کو فرسودہ رسومات اور توہمات سے باہر نکالے۔</p>
<p>۱۸۸۹ئ میں پنڈتا رامابائی چھے سال کا عرصہ گذار کرواپس ہندوستان لوٹیں اور بمبئی میں <annotation lang="en">Sharada Sadan</annotation> نامی ایک رہائشی اسکول قائم کیا۔ یہ اسکول بعد میں پونا منتقل ہو گیا۔ اسی دوران ان کا عیسائی مذہب کی طرف رجحان بہت زیادہ ہوتا گیا۔ ایک کرسچن ہسٹری میگزین کے مطابق وہ بہت سے عیسائیوں کی سوانح عمریاں پڑھتی تھیں انھوں نے سب سے زیادہ گہرا اثر ایک اینگلیکن پادری <annotation lang="en">William Haslam</annotation> کی کتاب <annotation lang="en">From Death into Life</annotation> سے لیا۔ وہ برہمن مذہب سے عیسائی ہونے والے اینگلیکن پادری نہمیاگورے <annotation lang="en">(Nehmiah Goreh)</annotation> اور مراٹھی شاعر نارائن تلک سے بھی بے حد متاثر تھیں۔ رامابائی نے نارائن تلک کے کچھ گیت اور زبور مکتی چرچ میں عبادت کے لیے گائے جانے کے باعث شائع بھی کروائے۔ بالآخر انھوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا اور فیصلہ کیا کہ وہ اپنی زندگی کو عورتوں اور بیواؤں کو غربت اور جہالت کے اندھیرے سے نکالنے کے لیے وقف کر دیں گی اور انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کر کے ایک نئی زندگی کی طرف لائیں گی۔ انھیں ہندوستانی اخبارات و رسائل اور ہندوستانی مصلحین کی طرف سے بے پناہ مخالفتوں کا بھی سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ وہ اپنے طالب علموں کو عیسائیت کی طرف راغب کرتی ہیں۔</p>
<p>انھوں نے ۱۸۸۹ئ میں ”مکتی مشن“ کی بنیاد رکھی جس نے نوجوان بیوہ عورتوں اور خاندان کی طرف سے ٹھکرائی ہوئی عورتوں کے لیے سائبان کا کام دیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں ۱۵۰۰ رہائش گاہیں، سو سے زائد مویشی موجود تھے۔ علاوہ ازیں انھوں نے وہیں ایک چرچ بھی تعمیر کروایا۔ پنڈتا کا مکتی مشن آج بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی، تعلیم، رہائش اور طبی امداد و سہولتِ رہائش میں سرگرمِ عمل ہے اور ضرورت مند افراد بالخصوص بیواؤں، نابینا اور گونگے، بہرے بچوں کے لیے کام کر رہا ہے۔</p>
<p>پنڈتا پہلی خاتون تھیں جنھوں نے نابینا لڑکیوں کے لیے بریل سسٹم متعارف کروایا اور مکتی میں نابینا اسکول قائم کیا۔ وہ پہلی خاتون تھیں جنھوں نے بمبئی میں ”نیشنل سوشل کانگریس“ کے ۲۰۰۰ نمائندگان سے خطاب کیا۔ وہ جب بھی تقریر کے لیے کھڑی ہوتیں تو پہلے سامعین کی خاموشی کا انتظار کرتیں اور جب سب اپنی نشستیں سنبھال لیتے اور مکمل سکوت طاری ہو جاتا تب وہ اپنا یادگار جملہ دہراتیں ”اے میرے ہم وطنو! یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کہ میری آواز کم ہے، کیونکہ تم لوگوں نے کبھی عورت کو موقع ہی نہ دیا کہ وہ اپنی آواز مضبوط بنائے“ اس لمحے وہ تمام سامعین کو اپنی مٹھی میں لے لیتی اور اکثریت سے اپنی قرارداد منوا لیتی۔</p>
<p>۱۸۹۶-۹۷ئ اور ۱۹۰۰-۱ئ میں ہندوستان دو مرتبہ قحط سالی کا شکار ہوا بالخصوص مدھیہ پردیش اور گجرات تباہ و برباد ہوئے۔ اس وقت رامابائی تقریباً ۲۰۰ خواتین اور بچوں کو جن کا قحط سالی کے باعث کوئی پرسانِ حال نہ تھا اپنے ساتھ لائیں اور ۱۰۰ ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک فارم <annotation lang="en">(farm)</annotation> میں ٹھہرایا جو انھوں نے ۱۸۹۵ئ میں کیدگاؤں <annotation lang="en">(Kedgaon)</annotation> میں خریدا تھا۔</p>
<p>اپنی زندگی کے آخری پندرہ سالوں میں بائبل مقدس کو عبرانی اور یونانی زبان سے براہِ راست مراٹھی زبان میں منتقل کیا۔ ان کی پوری کوشش تھی کہ ترجمہ عام فہم ہو۔ اس ترجمے سے سب سے زیادہ فائدہ دیہاتیوں کو ہوا کیونکہ ان کے لیے کلاسیکی زبان کو سمجھنا مشکل تھا۔ پنڈتا نے یہ ترجمہ اپنے طالب علموں کے ساتھ مل کر عوامی بول چال کی مراٹھی میں کیا۔ عیسائیت قبول کرنے کے بعد انھوں نے باقاعدہ عبرانی اور یونانی زبان سیکھی اور پھر براہِ راست ان دونوں زبانوں سے ترجمہ کیا۔ <annotation lang="en">Clementin Butler</annotation> کے مطابق، جو ایک مشنری تھا اور میتھوڈسٹ مشنریوں کی سوانح عمریاں بھی لکھتا رہا ہے، بائبل کے اس ترجمے کی طباعت، اشاعت اور جلد بندی کا کام بھی پنڈتا کے طالب علموں ہی نے کیا جنھوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ بائبل کے اس مراٹھی ترجمے کا پہلا ایڈیشن صرف عہد نامۂ جدید پر مشتمل تھا اور ۱۹۱۳ئ میں شائع کیا گیا اور ۱۹۲۴ئ میں پوری بائبل (عہد عتیق اور عہد جدید) کا ترجمہ ”مکتی مشن“ پریس سے شائع ہوا۔ پنڈتا کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا بالخصوص اسے یہ افتخار حاصل ہے کہ اس نے پوری بائبل (از پیدائش تا مکاشفہ) کا ایک زبان سے دوسرے زبان میں ترجمہ کیا۔ آج تک پوری تاریخِ کلیسا میں وہ واحد خاتون ہیں جنھوں نے اتنا بڑا کارنامہ انجام دیا۔</p>
<p>ن کا انتقال ۵ اپریل ۱۹۲۲ئ کو ۶۴ سال کی عمر میں ہوا۔ ۱۹۱۹ئ میں برطانوی حکومت نے ان کی اپنی کمیونٹی کے لیے خدمات کے صلے میں ”قیصرِ ہند“ کا خطاب دیا اور ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۹ئ میں ہندوستانی عورتوں کی ترقی میں ان کی خدمات کے اعتراف میں ہندوستان کی حکومت نے ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ </p>
</section>
</body>
</document>