-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 7
/
0030.xml
130 lines (130 loc) · 62.7 KB
/
0030.xml
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
<document>
<meta>
<title>میرا جی کے تراجم</title>
<author>
<name>ناصر عباس نیر</name>
<gender>Male</gender>
</author>
<publication>
<name>Bunyad, Volume 4</name>
<year>2013</year>
<city>Lahore</city>
<link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/12_nasir_abbas_nayyar_bunyad_2013.pdf</link>
<copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder>
</publication>
<num-words>6627</num-words>
<contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages>
</meta>
<body>
<section>
<p>ترجمہ، ایک تہذیب کا دوسری تہذیب سے مکالمہ ہے۔ مترجم، دو تہذیبوں کے درمیان ’ترجمان‘ کا کردار ادا کرتا اور دونوں کے درمیان اس مغائرت کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے جو زبان اور دوسری ثقافتی اوضاع کی وجہ سے موجود ہوتی ہے۔ مثالی طور پر یہ ترجمان اپنی یا دوسری تہذیب کے ان بہترین حاصلات کا انتخاب کرتا ہے، جن کے بارے میں وہ یقین رکھتا ہے کہ انھیں انسانی تہذیب کا مشترکہ ورثہ بنایا جا سکتا ہے۔ مشترکہ انسانی تہذیب کا خواب اگر کسی طور پورا ہو سکتا ہے تو فقط ترجمے کے ذریعے۔ مگر یہ مثالی صورت ہر جگہ موجود نہیں ہوتی، خاص طور پران ملکوں میں جہاں ترجمے کی روایت اپنا آغاز ہی ان قوتوں کے زیر اثر کرے جو نئے خیالات کے ذریعے اجارہ و اقتدار چاہتی ہوں۔ اس صورت میں ایک تہذیب دوسری تہذیب سے مکالمہ نہیں کرتی، اس پر نافذ ہوتی ہے۔ اردو میں انگریزی شاعری کے ترجمے کی روایت اپنے آغاز کے سلسلے میںکچھ ایسی ہی کہانی سناتی ہے۔ اس کہانی کا ایک اہم واقعہ میرا جی کے تراجم ہیں جواس میں ایک نیا موڑ لاتے ہیں۔</p>
<p>اردو میں انگریزی شاعری کے ترجموں کا آغاز ۱۸۶۰ئ کی دہائی میںہوا۔ غلام مولیٰ قلق میرٹھی (۱۸۳۳ئ-۱۸۸۰ئ) نے جواہر منظوم کے نام سے اردو میں انگریزی شاعری کے تراجم کی پہلی کتاب شائع کی۔ ”انھیں انگریزی نظموں کے ترجموں کا پروجیکٹ ملا، جو ۱۸۶۴ئ میں مکمل ہو کر گورنمنٹ پریس الہٰ آباد سے طبع ہوا۔“ پندرہ نظموں پر مشتمل اس کتاب کی خاص بات یہ تھی کہ اس پر مرزاغالب نے نظرِ ثانی کی تھی۔ سرکاری سرپرستی میں انگریزی ادب کی اردو میں ترویج کی اگلی کوشش بھی الہٰ آباد میں ہوئی۔ ۲۰ گست ۱۸۶۸ئ کو الٰہ آباد حکومت نے انعامی ادب کا اعلان نامہ شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اردو یا ہندی میں نثر یا نظم میں طبع زاد یا ترجمہ شدہ ’مفید‘ کتاب انعام کے لیے پیش کی جا سکتی ہے۔ انعامی ادب کے اس اعلان سے بقول سی۔ ایم۔ نعیم ”یہ امر طے ہوا کہ حکومتِ ہند کو نہ صرف یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انعام کے ذریعے کچھ خیالات کو عمدہ اور موزوں قرار دے سکتی ہے اور بعض خیالات کو نظر انداز کر کے اپنی رضامندی سے محروم کر سکتی ہے، بلکہ عمدہ خیالات کو تعلیمی نظام کے ذریعے نشرو اشاعت بھی کر سکتی ہے۔“ انگریزی ادب کے تراجم کو سرکاری سرپرستی میں جاری رکھنے کا عمل انجمنِ پنجاب (۱۸۶۵ئ) نے آگے بڑھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب ڈاکٹر لائٹنر اور کرنل ہالرائیڈ کی راہنمائی میں آزاد نے، حالی کی مدد سے نیچرل شاعری کے نمونے پیش کرنے کا آغاز کیا تو جواہر منظوم کے چار ایڈیشن چھپ چکے تھے۔ تراجم کی اس روایت کو رسالہ دلگداز اور مخزن نے خاص طور پر آگے بڑھایا۔</p>
<p>یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اردو میں انگریزی شاعری کے تراجم کی روایت، برطانوی ہند کے محکمہ تعلیم نے شروع کی اور اس کے پیش کردہ اصولِ ترجمہ ہی آگے چل کر معیاربنے۔ تعلیماتِ عامہ پنجاب کے ناظم کرنل ہا لرائیڈ نے انگریزی شاعری کا جواز اور انجمنِ پنجاب کے صدر ڈاکٹر لائٹنر نے ترجمے کے اصول وضع کیے۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے ربع اوّل کے ہندوستان میں اردو شاعری پر انگریزی ادب کے اثر کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے ان دونوں صاحبان کے خیالات پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔</p>
<p>کرنل ہالرائیڈ نے اردو شاعری کی اصلاحی تحریک کے سلسلے میں ۱۸۷۴ئ میں ایک تقریر رقم فرمائی، جسے مولانا محمد حسین آزاد نے موضوعاتی مشاعروں کے آغاز کے وقت اردو میں ڈھال کر پیش کیا۔ اس تقریر میں ہالرائیڈ نے جو کچھ کہا اس کا بڑا حصہ آزاد کے ذریعے ہم تک پہنچ چکا اور بیسیوں مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔ تاہم ترجمے کی بابت دو ایک باتوںکا ذکر ضروری ہے۔ ہالرائیڈکی تقریرکا بنیادی مؤقف وہی ہے جوولیم میورنے انعامی ادب کے اعلان نامے میں اختیار کیا تھا۔ ہالرائیڈ فرماتے ہیں کہ اردو میں مغربی دنیا کے انتہائی باکمال ذہنوں کے خورسند خیالات میں سے روشن، واضح اور مستحکم خیالات کو صرف ترجمے کے ذریعے ہی پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ ترجمے کے ایک بنیادی مسئلے کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ایک زبان کا جینئس دوسری زبان کے جینئس سے مختلف ہوتا ہے اور اس بات کا احساس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب انگریزی کے یونانی و لاطینی اساطیر سے مملو ہونے کا علم ہوتا ہے۔ ہالرائیڈ اس مشکل کے ضمن میں یہ کہہ کے رہ جاتے ہیں کہ اس طور محض ترجمہ ہندوستان میں کام یاب نہیں ہو سکتا۔ دوسرے لفظوں میں انگریزی اور اردو میں ایک ایسی مغائرت موجود ہے جسے محض ترجمہ یعنی حقیقی لفظی ترجمہ نہیں پاٹ سکتا۔</p>
<p>ائٹنر کے خیالات بھی کچھ اسی قسم کے ہیں۔ وہ بھی مغائرت کی موجودگی میں یقین رکھتے ہیں مگر مغائرت کی جڑیں تہذیب میں یعنی زیادہ گہری سطح پر دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک مشرق و مغرب طرزِ فکر کی سطح پر ایک دوسرے سے قطبین پر واقع ہیں۔ فرماتے ہیں:یورپی مصنف ’تجریدی اور غیر شخصی‘ انداز کے حامل ہوتے ہیں جب کہ مشرقی مصنف ’شخصی، مخصوص، مجسم اور ڈرامائی‘ انداز رکھتے ہیں۔ لہٰذا لفظی ترجمہ نہیں <annotation lang="en">adaptation</annotation> ہونی چاہیے۔۴ لیجیے انھوں نے مغائرت دور کرنے کی سبیل نکال لی۔ مگر ٹھہریے پہلے یہ دیکھتے چلیے کہ لائٹنرنے مشرق و مغرب کے جس فرق کی نشان دہی کی ہے، اس میں کتنی صداقت ہے۔ کیا تجریدی اورتجسیمی اندازانسانی فکرو تخیل سے متعلق ہیں یا ان میں سے ایک یا دوسرے پر کسی تہذیب کا اجارہ ہے؟ قصہ یہ ہے کہ دنیا کے ہر ادب میں شخصی اور تجریدی اسالیب ہوتے ہیں۔ نثر کاعموی انداز تجریدی ہوتا ہے اور اگر موضوع فلسفہ یا کوئی سماجی علم ہو تو اسلوب تجریدی ہو گا جب کہ شاعری عمومی طور پر حسی تمثالوں پر مبنی ہوتی ہے۔ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اردو میں انگریزی سے ترجمے کی تھیوری وضع کرنے والے حضرات دونوں زبانوں میں مغائرت اورفاصلے کو شدت سے باور کرانا چاہتے تھے۔ اس ’فاصلے‘ کی وجہ سے ایک بات کو ممکن بنایا جا سکتا تھا: انگریزی خیالات کی <annotation lang="en">adaptation</annotation>۔ یعنی انگریزی خیالات کو اپنی زبان کے محاورے میں ڈھال لیا جائے۔ ترجمے کا یہ طریقہ صرف خیال اور اس کے نفوذ کو اہمیت دیتا ہے۔ کسی متن کی پوری کیفیت، اس کے سیاق و سباق کو نہیں۔ چناں چہ کوئی تنقیدی رویہ پیدا نہیں ہوتا، صرف قبولیت اور انجذاب کی حریصانہ خواہش جنم لیتی ہے۔ بہر کیف لائٹنر کی یہ رائے عام طور پر قبول کر لی گئی کہ انگریزی مافیہ کو اردو محاورے میں ڈھال لیا جائے۔ مثلاً۱۸۹۹ئ میں نظم طباطبا ئی نے انگریزی شاعرطامس گرے کی <annotation lang="en">Elegy Written in a Country Churchyard</annotation> (۱۷۵۱ئ) کا ترجمہ ’گورِ غریباں‘ کے نام سے کیا۔ گرے کی نظم میں جہاں بھی یورپی اسمائے معرفہ آئے، انھیں ایرانی اور ہندوستانی اسمائے معرفہ سے بدل دیا گیا۔ کرامویل اور ملٹن کو رستم اور فردوسی سے بدل دیا گیا۔ </p>
<p>اس مختصر تاریخی روداد سے ہم چند نکات اخذ کر سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ شعری تراجم کا سارا سلسلہ جس رخ پر چلا، وہ نئی اردو شاعری کے لیے کینن سازی کا رخ تھا۔ نوآبادیاتی سرکار ہی ترجمے کے لیے انگریزی متون کا انتخاب کرتی تھی۔ قلق میرٹھی کومیرٹھ کے انسپکٹر مدراس ٹی جے کین نے انگریزی نظموں کا ایک منتخب مجموعہ ترجمے کی غرض سے دیا۔ آگے اسمٰعیل میرٹھی اور دوسرے لوگوں نے جو ترجمے کیے، سب نصابی ضرورت کے تحت کیے۔ جہاں نظمیں نہ فراہم کی گئیں، وہاں انگریزی طرز کی نیچرل شاعری کا تصور ’فراہم‘ کیا گیا جسے انجمنِ پنجاب نے وضع کیا تھا۔ انجمنِ ِپنجاب کی نئی شاعری کی تحریک جسے لائٹنر ’اردو شاعری کی اصلاحی تحریک‘ کا نام دیتے ہیں، پنجاب کے سکولی نصاب کے لیے نئی اردو نظمیں مہیا کرنے کی خاطر برپا کی گئی۔ اس طرح مخصوص قسم کی انگریزی نظمیں ہی نئی اردو شاعری کے لیے کینن بنیں۔ علاوہ ازیںانگریزی عہد ہی میں پہلی مرتبہ ادب کی زمرہ سازی بھی ہوئی:اخلاقی ادب، اصلاحی ادب، بچوں کا ادب، عورتوں کا ادب۔ ان سب کے لیے انگریزی ادب معیار اور کینن تھا۔ ہر چند خود انگریزی ایک کینن تھی، تاہم اس زبان میں لکھا گیا ساراادب کینن نہیں تھا۔ انگریزی ادب کا وہ حصہ جونئے اردو ادب کے زمروں میںموزوں بیٹھتا تھا، وہی کینن تھا۔</p>
<p>اگلے ستر برسوں میں زیادہ تر انگریزی رومانی شعرا کے متون ترجمہ ہوئے اور انھیں نئے اردو ادب کے لیے کینن بنایا گیا۔ ۱۹۳۰ئ کے اوائل میں جب میرا جی نے تراجم کا آغاز کیا تو ورڈزورتھ، شیلے، لانگ فیلو، آڈن، ٹینی سن، ایمر سن، ولیم کو پر، سیمو ئیل راجرزبراوئننگ، طامس روکی نظموں ہی کے تراجم کا رواج تھا۔ اقبال نے بھی انگریزی شاعری کے ضمن میں اسی روایت کی پابستگی اختیار کی، یعنی زیادہ تر اخلاقی نظموں کے ترجمے کیے، تاہم انھوں نے جرمن شاعر گوئٹے کی طرف توجہ دلائی اور پہلی مرتبہ اردو شاعری کی انگریزی اساس کینن سازی میں ’مداخلت‘ کی۔ اردو میں گوئٹے کے شعری اسرار کی آمد، ایک واقعہ تھی، مگرگوئٹے بھی ایک رومانوی شاعر تھا۔ یہ ضرور ہے کہ اس کی رومانویت انگریزی رومانویت سے مختلف تھی اور اس میں ایک خاص قسم کی ’مشرقیت‘ تھی۔ دوسری طرف میرا جی نے جرمنی سے ہائنے (۱۷۹۹ئ-۱۸۵۶ئ) کا انتخاب کیا۔ گوئٹے، اپنی علوِ فکر کے لیے ممتاز ہے اور ہانئے کا معاملہ یہ ہے کہ تھاتو وہ بھی رومانوی مگر اس کی ذات و عمل میںعبرانیت اور یونانیت شامل تھیں اور انھی کی بنا پر اس نے جرمنی سے رومانویت کا خاتمہ بھی کیا۔ ”اس کا دکھ درد کو دیکھنے کا اندازِنظر مادی تھا، لیکن اس کا دکھ درد کو جھیلنے میں صبر واستقلال مذہبی۔ وہ ایک رومانوی شاعر تھا جو قدیم اصنافِ شعری میں ایک جدید روح کا اظہار کرتا تھا۔ وہ ایک غریب بے چارہ یہودی تھا“۔ میرا جی کو ایسے ہی غریب، بے چارے شاعروں سے دلچسپی تھی جو ایک سے زیادہ اور اکثر متناقض شناختیں رکھتے تھے اور اس سے پیدا ہونے والی کش مکش سے شاعری کشید کرتے تھے۔</p>
<p>میرا جی کی زندگی کا اہم واقعہ یہ تھا کہ انھوں نے میٹرک کے دوران ہی میں تعلیم کو خیر باد کہہ دیا۔ یہ میرا جی اور اردو شاعری کے حق میں بہتر ہوا۔ اگر میرا جی اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے تو اس بات کا امکان تھا کہ وہ بھی نصابی نوعیت کے چند یورپی شعری متون تک محدود رہتے اور ان کا شعری تخیل اسی معیار بندی میں قید ہو کر رہ جاتا، جس کے اسیر ان کے معاصرین تھے، جن میں فیض، راشد اور مجید امجد بھی شامل ہیں۔ میرا جی نے مغربی شعرامیںوالٹ وٹمین، ایڈگرایلن پو (امریکی)، پشکن (روسی)، فرانساولاں، چارلسبودلیر، سٹیفانے ملارمے (فرانسیسی)، جان مینسفیلڈ، ڈی ایچ لارنس، ایملی برونٹے (برطانوی)، سیفو (یونان)، ہائنے (جرمن)، کیٹولس (اطالوی) اور مشرقی شعرا میں میرا بائی، چنڈی داس، امرو، ودیا پتی، دمودر گپت، عمر خیام نیز کوریائی، چینی، جاپانی گیتوں کے ترجمے کیے اور ان پر تفصیلی نوٹ تحریر کیے۔</p>
<p>میرا جی کے ضمن میں گیتا پٹیل نے لکھا ہے کہ ”علامت پسند ملارمے، بادلیئر، رمباد، پو جیسے شعرا کو قابلِ نظیر بنا کر پیش کرنے سے، میرا جی نے کینن سازی کی سیاست کا تجزیہ کیا۔“ حقیقت یہ ہے کہ میرا جی نے شاعری سے بڑھ کر اپنے تراجم میں اپنے عہد کی کینن سازی کی سیاست کا نہ صرف جائزہ لیا بلکہ اس میں دخیل بھی ہوئے۔ اس ضمن میں کچھ باتیں تو بالکل سامنے کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ میرا جی نے قدیم، کلاسیکی اور جدید عہد کے اور مغرب و ایشیا کے مختلف ملکوں کے شعرا کو منتخب کیا۔ یہ عمل ایک خاص عہد (زیادہ تر رومانویت) کے چند شعری متون (زیادہ تر انگریزی) سے مستحکم ہونے والے معیارِ شعر سے واضح انحراف تھا۔ انیسویں صدی کے نصف سے بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک انگریزی شاعری ہی کینن تھی۔(تسلیم کرنا چاہیے کہ ترقی پسند تحریک نے بھی روسی ادب کے تعارف سے انگریزی کینن کو چوٹ پہنچائی )۔ دوسرا یہ کہ میرا جی نے ان تراجم کے ذریعے اردو شاعری میں پہلی مرتبہ ہمہ دیسی نقطۂ نظر اختیار کیا۔ انھوں نے ایک ایسے شاعر کی نظر سے دیس دیس کی شاعری کو دیکھا، جس پر کسی واحد نظریے کی شدت کا بوجھ نہیں تھا، مگر وہ اپنے عہد کی بری طرح سیاست زدہ فضا میں اپنی معنویت باور کرانے کی جرأت سے لیس تھا۔</p>
<p>یہاں آگے بڑھنے سے پہلے ہمہ دیسی نقطۂ نظر سے متعلق دو ایک باتیں کہنے کی ضرورت ہے۔ ہمہ دیسی یا <annotation lang="en">cosmopolitan</annotation> نقطۂ نظر ’دیسی مقامیت‘ سے متعلق رہتے ہوئے بدیسی دنیائوں سے بھی ربط و ضبط رکھنے سے عبارت ہے۔ ادب میںہمہ دیسی کا آغاز اس احساس سے ہوتا ہے کہ ہمیں بطور ایک متجسس تخلیق کار کے، اپنے تمام سوالوں کے جواب اپنے دیس کے معاصر ادب میں نہیں ملتے۔ آپ اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہماری پیاسی روح کی سیرابی کے لیے ہمارے اپنے سرچشمے کافی نہیں، اس لیے ہمیں نئے سرچشموں کی تلاش کرنی چاہیے۔ واضح رہے کہ اس میں اپنا انکار نہیں ہوتا، اپنی جمالیاتی اور ثقافتی حسیت کے دریائوں کے پاٹ کو مزید کشادہ کرنے کی تمنا ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمہ دیسیت میں بدیسیت کا تصور بھی دیس کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ہمہ دیسیت، دوسری دنیائوں کی ادبی روایتوں کو مختلف و منفرد تو دیکھتی ہے، انھیں خود سے متضاد و متصادم نہیں دیکھتی۔ چناں چہ یہاں اجنبیت کا خوف نہیں، نئی اور انوکھی دنیائوں کو حیرت و تجسس سے دیکھنے اور اس سے اخذ و استفادہ کرنے کا میلان ہوتا ہے۔ ہمہ دیسیت، مشترکہ انسانی تہذیب کے اس خواب سے سرشار ہوتی ہے جو ترجمے کی مثالی صورت کا محرک ہوتا ہے۔ میرا جی کے تراجم اسی ہمہ دیسی نقطۂ نظر کی روشنی میں بدیسی ادب کو پیش کرتے ہیں۔ </p>
<p>ئ اور ۱۹۴۰ئ کی دہائیوں میں اردو دنیا کئی متصادم نظریات اور بیانیوں سے بوجھل تھی۔ ان میں سب سے اہم بیانیہ قومیت پرستی کا تھا جو لسانی، مذہبی، سیاسی، علاقائی محوروں پر تشکیل پاتا تھا اور فرقہ وارانہ اسلوب میں ظاہر ہوتا تھا۔ ایک سطح پر یہ بیانیہ متحد تھا اور دوسری سطح پر تقسیم در رتقسیم کی کیفیت رکھتا تھا۔ انگریزی استعمار کو اپنا مشترکہ حریف سمجھنے میں متحد تھا، مگر اس سے آگے خود اپنے اندر سے اپنے کئی حریفوں کو جنم دیتا تھا۔ میرا جی کی شاعری اور تراجم اس متصادم فضا میں ظاہر ہوئے۔ اس فضا میں کوئی متن اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر الگ تھلگ نہیں رہ سکتا تھا۔ یہ سوچنا خام خیالی ہے کہ میرا جی کی شاعری فرار اختیار کرتی ہے اور ان کے تراجم ایک رجعت پسند کے شوقِ فراواں کی مثال ہیں۔ راقم کی تو یہ بھی رائے ہے کہ رجعت پسندی میں بھی کوئی حرج نہیں، اگر وہ کسی لکھنے والے کو اس کی ذات کے کسی گہرے سوال کا جواب مہیا کرتی ہو۔ اگر ادب کی کوئی تہذیب ہے تو اس میں ایک ادیب کی آزادی کے احترام کو مقدم رکھ کر ہی اس کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ بہر کیف، میرا جی کے تراجم قومیت پرستی کے باہم دست و گریباں بیانیوں کے متوازی اپنے لیے جگہ خلق کرتے ہیں۔ یہ تراجم ان بیانیوں پر راست کوئی سوال نہیں اٹھاتے ؛یعنی نہ تو وہ ہندو قوم پرستی کی حمایت پر کمر بستہ ہوتے ہیں، نہ مسلم قوم پرستی کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ہندوستانی قومیت کی تائید میں سرگرم ہوتے ہیں۔ میرا جی کی شاعری اور تراجم کی حقیقی جہت کو حمایت و مخالفت کے محاورے میں نہیں سمجھا جا سکتا۔ ثقافتی فضا جب متصادم بیانیوں سے بوجھل ہو تو اکثر لکھنے والے، کسی ایک بیانیے کی حمایت اور دوسرے کی مخالفت کا انداز اپناتے ہیں، مگر کچھ سعید روحیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو تصادم اور ایک دوسرے کی نفی کرنے والی فضا سے باہر، مگر اس کے متوازی ایک نئی فضا قائم کرتی ہیں۔ میرا جی انھیں میں شامل ہیں۔ میرا جی کے تراجم کی فضا کثیرالثقافتی پس منظر اور ہمہ دیسی زاویۂ نظر سے عبارت ہے۔ یہ قومیت پرستی کے متوازی ’ایک اور دنیا ہے‘: یہی اس دنیا کی معنویت ہے۔ یہ دنیا مختلف زمانوں، مختلف تخیلات اور مختلف اسالیب اور اکثر تضادات کی دنیا ہے جسے اگر کسی شے نے باہم باندھ رکھا ہے تو وہ ادبیت کا دھاگا ہے ؛ایک ایسی ’روح جمال‘ جو مختلف زمانوں میں مختلف رنگوں انگوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہاں ازمنہ وسطیٰ کے یورپ کے جہاں گرد طلبا کے گیت بھی ہیں جو علم کی تلاش میں یورپ کی مختلف یونی ورسٹیوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے اور ’بغیر دولت کے، بغیر فکر وتردد کے، بے پروا عشرت پسند، وہ ایک آزاد زندگی بسر کرتے تھے اور منطق و دینیات کے کسی مسئلے پر بحث کرنے کی بجائے، شراب و شعر و نغمہ اور عورت ان کے دل پسند موضوعِ ِسخن ہوا کرتے تھے۔‘ یہاں بیسویں صدی کا پشکن جیسا شاعر بھی ہے جو کسی بڑے شاعر کو نہیں، اپنی انا کو اپنا سب سے بڑا معلم سمجھتا تھا اور جو نہ باغی تھا، نہ مصلح، نہ آزاد خیال اور نہ قدامت پسند۔ وہ بس ایک جمہوریت پسند انسان تھا۔(وہ بھی میرا جی کی طرح سینتیس برس اور چند ماہ جیا)۔ اسی طرح فرانس کے پندرھویں صدی کے فرانساں ولاں اور انیسویں صدی کے بادلیئر جیسے آوارہ شاعر بھی ہیں۔ ولاں کی شخصیت اور شاعری اجتماع ضدین تھی اور بادلیئربھی کچھ ایسا تھا: اسے بس ایک آرزو تھی، کسبِ کمال کی؛بقول میرا جی ’وہ ایک گناہ گار ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک قاضی کی ہے؛وہ ایک معلم اخلاق ہے لیکن اسے بدی کی خوش کن کیفیات کا ایک گہرا، تیز اور شدید احساس ہے‘۔ نیز انیسویں صدی کا ملارمے بھی ہے جو مشکل پسند ہے مگر جس کے کلام سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ خالص شاعری کیا ہے۔ یہیں پانچویں صدی قبل مسیح کا سنسکرت شاعر امارو بھی ہے جس نے سنسکرت ادب میں پہلی بار اس حقیقت کو منوایا کہ صرف محبت ہی کو شاعری کا بنیادی موضوع بنا کرگونا گوں نغمے چھیڑے جا سکتے ہیں اور یہیں پندرھویں صدی کا بنگالی شاعر چنڈی داس بھی ہے، جو ایک برہمن تھا، مگر رامی دھوبن کے عشق میںگرفتار ہو کرذات باہر اور وطن باہر ہوا، نیز جس کا عقیدہ تھا کہ جنسی محبت ہی سے خدا کی طرف دھیان لگایا جا سکتا ہے۔ یہیں چھٹی صدی قبل مسیح کے یونان کی سیفو بھی ہے جس کے متعلق افلاطون نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ سروشِ غیبی نو ہیں، مگر وہ بھولتے ہیں، لیسبوس کی سیفو بھی ہے جو دسواں سروشِ ِغیبی ہے۔ اصل یہ ہے کہ میرا جی ان متضاد، متنوع خصوصیات کے حامل شعرا کے ترجموں سے یہ باور کراتے ہیں کہ ہر شاعرانہ آواز اور ہر انسانی جذبے کو اظہار کی آزادی ہے۔ اظہار کی اس آزادی کا مفہوم اپنی اس معاصر شاعری کے سیاق میں پُرنور ہو کر سامنے آتا ہے جو قومی، اخلاقی، سیاسی جذبات سے سرشار تھی۔ بغاوت، اصلاح، آزادی کے بڑے خواب دکھانے کو اپنا ایمان بنائے ہوئے تھی۔ میرا جی بڑے، عظیم الشان خوابوں میں نہیں چھوٹے چھوٹے ان انسانی خوابوں میں یقین رکھتے ہیں جن سے مختلف زمانوں اور ثقافتوں کے لوگوں نے اپنی روح کے چراغ جلائے اور جن کی لو آج بھی ہمیں اپنے اندر اترتی محسوس ہوتی ہے۔ یہ شاعری کی لا زمانی شعریت ؍ادبیت پر اصرار کا رویہ تھا۔ دیکھیے میرا جی کس قسم کی نظمیں بذریعہ ترجمہ سامنے لاتے ہیں؛</p>
<blockquote>
<verse>
مست عشرت کا کوئی مول نہیں
میرے قریں
نفس کی بہجت مستانہ، غضب، سر جوشی
ان کی قیمت ہی نہیں
بازوئوں میں مرے اک سانپ کی مانند کوئی
جسم حسیں
</verse>
<p>(سنجوگ، پشکن)</p>
<p>وہ ایک مہرِ آبنوسی ہے، ایک نجمِ سیاہ اور اس کے باوجود نورو مسرت کی کرنیں اس میں سے پھوٹ رہی ہیں۔ بلکہ وہ ایک ایسے چاند کی طرح ہے جس نے اسے اپنا لیا ہے۔ وہ چاند، گیتوں کا دھندلا، پژمردہ ستارہ نہیںجو کسی کٹھور دلھن کی طرح ہو، بلکہ وحشی، سرگرداںاور مدہوش چاندجو کسی طوفانی رات کے آسمان میں ہو۔ وہ سیمیں سیارہ نہیں جو لوگوں کے مطمئن خوابوں میں مسکراتا ہو، بلکہ ایک سانولی غضب ناک دیوی جسے جادو کے اثر سے آسمانوں سے نکال دیا گیا ہو، جسے ساحروں نے ڈری ہوئی دھرتی پر پرانے زمانوں سے آج تک ناچنے پر مجبور رکھا ہو </p>
<p>(سانولا گیت، چارلس بادلیئر)</p>
<verse>
وہ سامنے دورپہاڑی ہے اور اس پر کہرا چھایا ہے
اور بہتی ہوائوں نے اپنے ہونٹوں پر قفل لگایا ہے
یہ کہرا دھندلا دھندلا ہے ذرے ذرے میں سمایا ہے
ان مٹ ہے لافانی، جیسے لوہے سے کسی نے بنایا ہے
یہ کہرا ایک اشارہ ہے پیڑوں کے سروں سے چھلکا ہے
بھیدوں کے بھید نہاں اس میں، یہ تو بھیدوں کا دھندلکا ہے
</verse>
<p>(مرے ہوئے کی روحیں، ایڈگر ایلن پو)</p>
<verse>
اے دریا میں نے تجھے منبع پر بھی دیکھا ہے
ایک بچہ بھی تجھے پھلانگ سکتا ہے
پھولوں کی ٹہنی سے بھی تیرا راستہ بدلا جا سکتا ہے
لیکن اب تو ایک پھیلا ہو اطوفان ہے
اور اچھی سے اچھی کشتی کو بھنور میں گھیر سکتا ہے
افسوس، دیا متی!دیا متی کی محبت!
</verse>
<p>(مرد، امارو)</p>
<verse>
وہ مرچکی ہے، لیکن پھول اب بھی مسکراتے ہیں
اے موت!
اس لڑکی کو حاصل کرنے کے بعد تجھے مارنے کی فرصت کیسے ملتی ہے؟
</verse>
<p>(مرد، امارو)</p>
<verse>
کان میں آئی تان سریلی، ایک پپیہا بول اٹھا
میرے من کی بات ہی کیا ہے، سارا بن ہی ڈول اٹھا
میں نے جان لیا ہے پنچھی!دکھ کی تیری کہانی ہے
تیرے منھ پر بس لے دے کے اک پی پی کی بانی ہے
</verse>
<p>(آمدِ ِبہار، ہائنے)</p>
</blockquote>
<p>میرا جی نے طامس مور کی نظموں کے ترجمے کرتے ہوئے، ان پر جو نوٹ لکھا ہے، وہ ہماری معروضات کی مزید تصدیق کرتا ہے۔ بر سبیلِ تذکرہ، میرا جی سے پہلے طامس مور کی کچھ نظموں کے تراجم ہو چکے تھے۔ مخزن کے نومبر ۱۹۰۹ئ کے شمارے میں عزیز لکھنوی نے ’ٹی کا جواں چاند‘ کے عنوان سے اور مخزن ہی کے فروری ۱۹۱۰ئ کے شمارے میں نادر کا کوری نے ’گزرے زمانے کی یاد‘ کے عنوان سے مور کی ایک میلوڈی کا ترجمہ کیا۔ کاکوروی کا ترجمہ مغربی نظموں کے چند عمدہ اردو تراجم میں سے ایک ہے۔ شاید اسی لیے میرا جی نے اسے دوبارہ ترجمہ کرنے کے بجائے مور پر اپنے مضمون میں شامل کر لیا۔</p>
<p>میرا جی نے طامس مور (۱۷۷۹ئ-۱۸۵۲ئ) کو ’مغرب کا ایک مشرقی شاعر‘ قرار دیا ہے۔ اس ضمن میں میرا جی نے ہندوستان اور آئرستان کی بعض مماثلتیں واضح کی ہیں، مگر ایک دوسری اور بڑی وجہ ہے جس کی طرف میرا جی نے توجہ دلائی ہے۔ یہ کہ طامس مور نے لالہ رخ (۱۸۱۷ئ) کے نام سے ایک مثنوی لکھی، جواگرچہ ایک امریکی پبلشر کی فرمائش پر لکھی گئی مگر مشرق سے کسبِ ِفیضان کے اسی جذبے کے تحت لکھی گئی جو نشاۃ ثانیہ سے انیسویں صدی تک مغرب کے دل میںموجزن رہا ہے۔ میرا جی کی ہمہ دیسیت کو سمجھنے کے لیے طامس مور کی مثال کافی اہم ہے۔ طامس مورنے لالہ رخمیں اورنگ زیب عالم گیر کی بیٹی اور باختر کے نوجوان شاہ کی شادی کا شعری بیانیہ لکھا ہے جس میں اہم واقعہ لالہ رخ کا ایک شاعر فرامرز کی محبت میں گرفتار ہونا ہے۔ یاد کیجیے: ۱۹۳۰ئ کی دہائی میں مشرق پر مغرب کے سیاسی، علمی، تہذیبی غلبے نے دونوں میں کش مکش کی کیا صورت پیدا کر دی تھی؟ اسی کش مکش سے مشرق کے دل میں اپنی عظمتِ رفتہ کی مدح خوانی کا جوش پیدا ہوا تھا (جو اب تک ٹھندا نہیں پڑا)۔ استعماری مغرب کے تصور سے پیدا ہونے والے نفسیاتی دبائو سے آزاد ہونے کی یہ ایک معروف صورت تھی کہ مغرب پر مشرق کے علمی و تہذیبی احسانات کا ذکر کیا جائے۔ میرا جی لالہ رخ کو مشرق کی عظمتِ رفتہ کا قصیدہ لکھنے کا بہانہ نہیں بناتے؛اسے بس ایک تاریخی صداقت کے طور پر سامنے لاتے ہیں۔ اصل میں وہ اس سارے سلسلے کو اپنی ہمہ دیسی فکر کی روشنی میں دیکھتے ہیں:یعنی تمام دیس ایک دوسرے سے فیض اٹھاتے ہیں اور ہر دیس میں دوسرے دیس کو کچھ نیا دینے کے لیے موجود ہوتا ہے۔ دیکھیے وہ طامس مور کے شاعرانہ امتیاز سے متعلق کیا لکھتے ہیں:</p>
<blockquote>
<p>مور کی پیدائش اس وقت ہوئی جب آئرستان میں ایک نئے عہد کا آغاز ہو رہا تھا اور حُب الوطنی کا جوش رگوں میں جاری تھا، لیکن اس سلسلے میں اس نے کبھی عملی حصہ لے کر اپنی زندگی کی عام روش اور بہائو میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔ مور فطری طور پر محض ایک شاعر تھاکوئی پیغام بر یا باغی نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب بھی انتخاب کا موقع آیااس نے انقلاب پسندی پر میانہ روی کو ترجیح دی، لیکن قومی حیثیت سے آئرستان کے لیے اس کے دل میں تخیل پرستی کا ایک احساس ضرور تھا۔ وہ اپنے ملک میں خوش حالی اور آزادی کا خواہاں تھا۔</p>
</blockquote>
<p>یوں لگتا ہے جیسے میرا جی نے مور میں خود کو دریافت کیا ہے۔ ٹھیک یہی بات ہم میرا جی کی شاعری اور تراجم کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔ میرا جی محض ایک شاعر ہیں، پیغام بر یا باغی نہیں۔ میرا جی کے زمانے میں پیغام بر اور باغی دونوں قسم کے شاعر موجود تھے، مگر میرا جی نے ان کا نہیں، ایک اپنا راستہ اختیار کیا۔ یہ ایک شاعرِ محض کا راستہ تھا۔ ان کے پاس دنیا کو سمجھنے کا ذریعہ شاعری تھی۔ انھوں نے جتنے شعرا کے ترجمے کیے، وہ انقلابی یا باغی نہیں، مگر اپنے زمانے کی صورتِ حال کا شاعرانہ ادراک رکھتے ہیں۔ اسی طرح میرا جی کے یہاں بھی ہندوستان کا ایک تخیل موجود تھا۔ چوں کہ یہ ایک ایسے شاعر کا تخیل تھا جوگھاٹ گھاٹ کا پانی پینے کے لیے سرگرداں تھا، اس لیے یہ تخیل ہندوستان کی عظمتِ رفتہ کی یادوں کا جشن نہیں مناتا تھا۔ ہمارے یہاں جن شعرا نے عظمتِ رفتہ کا قصیدہ لکھا، انھوں نے مغرب اور معاصر صورتِ حال پر بس چوٹیں کی ہیں۔ میرا جی کا قدیم ہندوستان کے ادب کی طرف وہی رویہ ہے جو مغرب کے شعرا کی طرف ہے اور اس سب کو وہ معاصر صورتِ ِحال میں بامعنی بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ میرا جی کے تراجم اور شاعری تفریق و تقسیم کو معنی کی تخلیق کا ذریعہ نہیں بناتے، مماثلت و قربت کے ذریعے معنی وجود میں لاتے ہیں۔ یہ عمل اردو میں انگریزی شاعری کے ترجمے کی روایت کا آغاز کرنے والوں کی فکر سے کھلا انحراف تھا۔</p>
<p>میرا جی نے ترجمے کے ذریعے اس ثقافتی فضا میں ’خاموش مگر خاصی مؤثرمداخلت‘ کی جو کئی متصادم نظریات اور بیانیوں سے بوجھل تھی۔ اس کی اہم مثال نگار خانہ ہے۔</p>
<p>پہلے اس کتاب سے متعلق کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔</p>
<p>ڈاکٹر رشید امجد نے لکھا ہے کہ ”یہ طویل نظم دوسری بہت سی مشرقی کہانیوں کے ساتھ ایک انگریزی انتھالوجی <annotation lang="en">(Romances of the East)</annotation> میں شامل تھی (اس پر مرتب کا نام درج نہیں تھا)۔ ”انھوں نے اشفاق احمد کے ۲۸ نومبر ۱۹۹۰ئ کو اپنے نام لکھے گئے ایک خط کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں نگار خانہ کو ایک نامکمل کتاب کہا گیا ہے۔ نیز یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ اس کا دوسرا حصہ میرا جی نے ترجمہ کر دیا تھا جسے اشفاق احمدنے محفوظ کر لیا تھا۔ ان دونوں باتوں کے سلسلے میں عرض ہے کہ میرا جی نے نگار خانہ کا ترجمہ مشرق کے رومان نامی انگریزی کتاب سے نہیں، بلکہ ایک دوسری کتاب سے کیا تھا۔ اس کتاب کا پورا نام یہ ہے:</p>
<blockquote>
<p><annotation lang="en">Eastern Love, Vol 1 ٴ& 2
The Lessons of a Bawd and Harlot's Breviary
English Versions of the KUTTNIMATAM of Damodargupta and SAMAYAMATRIKA of Kshemendra</annotation></p>
</blockquote>
<p>یہ کتاب پہلی بار لندن سے ۱۹۲۷ئ میں جون روڈکر کے زیر اہتمام شائع ہوئی تھی۔ <annotation lang="en">E. Powys Mathers</annotation> (۱۸۹۲ئ-۱۹۳۹ئ) نے اسے ترجمہ کیا تھا (جس کی کچھ تفصیل مبشر احمد میر نے جدید ادب کے میرا جی نمبر میں دی ہے)۔ نگار خانہ کی ماخذ کتاب کو دیکھنے کے بعد یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ میرا جی نے دمودر گپت کی کٹنی متم کا تقریباًمکمل ترجمہ کیا۔ ای پی ماتھرس کا ترجمہ دس ابواب اور ۹۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ میرا جی نے چوتھے باب کا ترجمہ نہیں کیا جو ماتھرس کی کتاب میں <annotation lang="en">Preludes</annotation> کے نام سے شامل ہے۔ تاہم باقی نو ابواب کا مکمل ترجمہ کیا ہے۔ اشفاق احمد نگار خانہ کے جس دوسرے حصے کی خبر دیتے ہیں، وہ اگر موجود تھا تو وہ کشمندر کی کتاب کا ترجمہ ہے جو ای پی ماتھرس کی مذکورہ بالا کتاب کی دوسری جلد ہے۔ چوں کہ کشمندر کی سمیام ترک کا موضوع بھی کنچنیوں کی روزمرہ زندگی کی تعلیم سے متعلق ہے، اس لیے اشفاق احمد کو غلط فہمی ہوئی کہ یہ دمودر گپت کی کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔</p>
<p>اسی ضمن میں ایک دلچسپ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ای پی ماتھرس نے دمودر گپت اور کشمندر کی کتابوں کے تراجم سنسکرت سے نہیں، لوئی لا نگلے <annotation lang="en">(Louis de Langle)</annotation> کے فرانسیسی ترجمے سے کیے۔ لہٰذا میرا جی کا ترجمہ اصل کتاب سے ’دودرجے دور‘ ہے۔</p>
<p>میرا جی کے ترجمے پر گفتگو سے پہلے، ماتھرس کے پیش لفظ سے کچھ حصوںکو پیش کرنا ضروری ہے۔ یہ حصے ہمیں ایک طرف کٹنی متم کے بارے میں کچھ اہم باتوں سے آگاہ کرتے ہیں اور دوسری طرف مشرقی ادب کی طرف یورپی ذہنی رویے کی خبر بھی دیتے ہیں۔</p>
<blockquote>
<p>دونوں میں سے] کوئی مصنف طرف داری نہیں کرتا، نہ ہی کوئی نظم پوری طرح نصیحت آموز یا طنزیہ ہے۔ دونوں نظموں کو ایک کھیل کا راہنما کتابچہ سمجھا جا سکتا ہے جس میں اصولوں کو امیر نوجوانوں اور بیسوائوں کے لیے تحریری طور پر واضح کر دیا جاتا ہے اور جس میں بہتر کھلاڑی کو جیت کے لیے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔۔۔۔[ہندوستان میں، جب یہ کتابیں تصنیف ہوئیں]بیسوائیںہمدردانہ تعظیم پاتی تھیں اور انھیں شہر کی شان اور زینت سمجھا جاتا تھا۔ وہ تمام عوامی میلوں ٹھیلوں، مذہبی جلوسوں، گھڑ دوڑوں، مرغ، بٹیر اور دنبوں کی لڑائیوں کے مقابلوںمیں دیکھی جاتی تھیں اور ہر تھیٹر کے ناظرین میں نمایاں ہوتی تھیں۔ بادشاہ ان پر مہربان ہوتے اور ان سے مشورہ کرتے تھے۔ ہم ان سے ڈراموں اور عشقیہ قصوں کی ہیروئنوں کے طور پر واقف ہیں۔۔۔۔ جاتک میں ہم پڑھتے ہیں کہ انھیں ایک رات کے لیے ہزراوں سونے کے ٹکڑے دے دیے گئے اور ترنگ کی کتھا میں ایک بیسوا نے ایک گھنٹے کے لیے پانچ سو ہاتھی طلب کیے۔ بعد کی کتابوں میں ایک طوائف کو اس قدر دولت مند دکھایا گیا ہے کہ وہ ایک معزول بادشاہ کی بحالی کے لیے ایک پورا لشکرخرید سکتی ہے۔ ان نوازشاتِ بے جا کی تہہ میں چھپی حقیقت کو سمجھنا مشکل نہیں۔[ہندوستان کی عورتوں میں] ایک طرف مجبور اور کثیر الاعیال عورتیں شامل ہیں جو گھراور نسل کی خدمت پر مامور ہیں اور دوسری طرف وہ عورتیں ہیں جو آزاد ہیں اور اپنے حسن کو قائم رکھنے کے لیے بے اولاد رہنے کا عہد کیے ہوئے ہیں۔ عورتوں کی یہ طبقاتی تقسیم، جس میں دوسرے سماجی گروہ بھی شامل ہیں، ہند میں، برہمنی اقتدار اور ذات پات کے نظام کی وجہ سے بہت گہری ہے۔ ”کٹنی کے پاٹھ“ اس وقت لکھی گئی، جب بیوی کی حالت اور ادھیکار براے نام رہ گیا تھا۔ وہ ناخواندہ تھی اور آزادنہ سوچ سے واقف نہیں تھی۔ وہ کم عمری ہی میں اپنی ماں کے اختیار سے ساس کے اختیار میں چلی جاتی تھی۔ اس کے شوہر پرد وسروں کا بھی حق ہوتا اور وہ اس کے ساتھ ذہنی رفاقت نہیں رکھتی تھی۔ اسے فقط گمان کی بنیاد پر پرے کر دیا جاتا اور اگر بے اولاد رہتی تو نفرت کا نشانہ بنتی۔ اگر وہ بیوہ ہو جاتی تو اپنی بیوگی میں زندہ رہنے جوگی نہ ہوتی۔ بلاشبہ بیوی کی اس حیثیت کا سب سے زیادہ فائدہ بیسوا اٹھاتی۔ بیسوا کی آزادی کی حفاظت قانون کرتا اور وہ تسلیم و انکار کی مجاز تھی۔ اسے صرف دولت ہی سے زیر کیا جا سکتا تھا اور وہ واحد ایسی مخلوق تھی جومردوں کی رقابت کا بھی فائدہ اٹھاتی۔ اس کے بنائو ٹھنائو کا ایک جز اس کی مکمل تعلیم تھی اور اس کی تعلیم نہ صرف موہ لینے والی ہوتی بلکہ اس کا تحفظ بھی کیا جاتا۔</p>
<p>اس طرح جیسے جیسے بیوی زیادہ سے زیادہ غلام ہوتے چلی گئی، بیسوا زیادہ سے زیادہ ایک آدرش بنتے چلی گئی، ایک ایسی چیز جس کے لیے لافانی نادانیاں کی جانے لگیں۔ اس کے لیے خود کو برباد کرنارواج بن گیا۔ اگرچہ حقیقی نکتہ رس، ذہین اور تعلیم یافتہ مرد، ان بیسوائوں کے متعلق وہ سب جانتے ہوئے جسے جانا جا سکتا تھا، خود کو ان کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے۔</p>
</blockquote>
<p> ای پی ماتھرس نے ہندوستانی سماج میں بیسوا کے رسوخ کی تو درست نشان دہی کی، مگر ایک اہم بات سمجھنے سے قاصر رہے۔ کسی بات کی تہہ تک نہ پہنچ سکنا ایک معاملہ ہے اور کسی اہم بات کی ناروا تعبیر کرنا دوسرامعاملہ ہے۔ ماتھرس صاحب نے کٹنی متم کو ایک راہ نما کتابچہ یا مینول کہا ہے۔ کیا کوئی مینول ایک جمال پارہ ہو سکتا ہے جس طورکٹنی متم ہے؟اس میں عورت کے جمال، مرد وعورت کے رشتے، لاگ لگائو، جنسی معاملات اس عمدہ پیرائے میں پیش ہوئے ہیں کہ پڑھتے ہوئے اس جانب توجہ ہی نہیں جاتی کہ یہ ایک کٹنی کا نٹنی کے لیے ہدایت نامہ ہے۔ دمودر گپت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں۔ بس اس قدر معلوم پڑتا ہے کہ وہ آٹھویں صدی کے شاہِ ِشمیر جیا پیدا ونیایادتیا کے دربار میں ایک اعلیٰ عہدے دار تھا۔ یعنی وہ نٹنیوں کا دلال نہیں تھا۔ اس نے یہ کتاب کیوں لکھی، اس کا جواب ہمیں ماتھرس کے پیش لفظ میں نہیں ملتا۔ تاہم ایک اور کتاب اس سلسلے میں ہماری یاوری کرتی ہے اور وہ ہے اے بیری ڈیل کائتھ کی سنسکرت ادب کی تاریخ۔</p>
<blockquote>
<p>آدمی کے مقاصدِ ِحیات میں تیسرا کام یعنی محبت ہے اور ہندوستانی مصنفین نے اس موضوع کو اسی طرح سنجیدگی سے لیا ہے جس طرح دھرم اور ارتھ کو۔ جس طرح ارتھ شاستر بادشاہوں اور وزیروں کے لیے ہے، اسی طرح کام شاستر صاحبانِ ذوق کے مطالعے کے لیے ہے، جو محبت کے علم کو حدِ کمال تک لطیف اور مفید بنانا چاہتے ہیں۔</p>
</blockquote>
<p>حیرت اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ یہی بات دمود رگپت کی اس کتاب میں بھی درج ہے۔ یہ اقتباس دیکھیے جو نگار خانہ سے لیا گیا ہے۔</p>
<blockquote>
<p>جو کوئی دھرم کے کام کو پور انہیں کرتااور دھرم ہی سب سے بڑا گن ہے اور جو کوئی ارتھ پر جیت پانے کی کوشش نہیں کرتا اور ارتھ ہی سب سے بڑا دھن ہے اور جو کوئی کام کی دولت اکٹھی نہیں کرتا، جس سے پریم کا آنند ملتا ہے تو پھر اس سنسار میں جہاں ہر کوئی اچھی سے اچھی بات کی کھوج میں لگا ہوا ہے، اس کا جیون کسی کام کا نہیں۔</p>
</blockquote>
<p>لہٰذا کٹنی متم اسی سنجیدگی سے لکھی گئی ہے جس اعلیٰ سنجیدگی سے دھرم اور ارتھ کی کتابیں۔ دوسرے لفظوں میں قدیم ہندوستان میں آدمی کا ایک خاص تصور تھا جومذہب، علم اور عشق سے عبارت تھا۔ کٹنی متم، کتابِ ِشق ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ قدیم ہندوستانی ادب میں مذہب، علم اور عشق میں کوئی تضاد نہیں۔ یہ کم و بیش وحدت کا وہی تصور ہے جو یونان میں علم کی وحدت کا تصور تھا، جس کے مطابق صداقت، خیر اور حسن ایک ہی اکائی کا حصہ تھے۔ خیر کی جستجو مذہب، صداقت کی فلسفہ اور آرٹ حسن کی جستجو کرتے تھے۔</p>
<p>ماتھرس سے ملتی جلتی غلط فہمی منٹو کو بھی ہوئی ہے جنھوں نے نگارخانہ کا دیباچہ لکھا۔ منٹو کے خیال میں میرا جی نے کٹنی متم (منٹو غلطی سے نٹنی متم لکھتے ہیں) کا ترجمہ اس لیے کیا کہ ”وہ جنس زدہ تھے۔ یہ ’سکسئول پرورٹ‘ کا صحیح ترجمہ نہیں، مگر آپ اسے یہی سمجھیے۔ میرا جی سے میں نے اس کے متعلق کئی بار باتیں کیں۔ ہر بار انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ جنس زدہ ہیں۔۔۔۔ مجھے یہاں ان کی شخصیت کا تجزیہ نہیں کرنا ہے اور نہ مجھے اس کے جنسیاتی رجحانات کا تذکرہ کرنا ہے۔ اس کا ذکر صرف اس لیے آگیا ہے کہ اتفاق سے اس کتاب کا موضوع ٹھیٹ جنسیاتی ہے۔“ دوسرے لفظوں میں نگار خانہ میںمیرا جی کی جنسی کج روی کا انعکاس ہوا ہے۔ اگر جنسی کج روی نگار خانہ جیسی نثر کی تخلیق کا باعث ہو سکتی ہے توایسی کج روی پر ہزاروں کی پاک دامنی قربان کی جانی چاہیے۔ یہاں مقصود میرا جی کی کسی کج روی کا دفاع مقصود نہیں۔ اگر ان میں جنسی یا کوئی دوسری کج روی تھی تو یہ ان کا شخصی انتخاب یا مجبوری تھی۔ ہمیں ان کی شخصیت سے نہیں، ان کے کام سے غرض ہے اور ان کے کام (اور یہاں ان کے تراجم پیشِ نظر ہیں) میںجنسی بے راہ روی نہیں، عشق و جمال کو اس کی حدِ کمال تک سمجھنے اور اسے ایک تہذیب میں بدلنے کی سعی ملتی ہے۔ مذہب، فلسفہ اور عشق کی حدِ ِمال اور اس سے وجود میں آنے والی تہذیب کیا ہے، اس کا جواب آسان نہیں، مگر اتنا ہم کَہ سکتے ہیں، یہ تہذیب ایک اعلیٰ درجے کے نشاط اور اتنی ہی بلند مرتبہ بصیرت سے عبارت ہے۔ انسان نے اپنے دکھوں سے نجات کے لیے اس نشاط و بصیرت سے بڑھ کر کسی اور شے کو اپنا ملجا نہیں پایا۔ بصیرت دکھ کا خاتمہ کرے نہ کرے، دکھ کو سہنے کا وقار ضرور عطا کرتی ہے۔ یہی وقار آمیز تمکنت و بصیرت نگار خانہ کے صفحات میں نور افشاں ہے۔ ایک ایسی کتاب جو کٹنی کے پاٹھوں پر مشتمل ہے، اس میں ایسی باتیں اس امر پر دال ہیں کہ آرٹ میں اکثر باتیں تمثیلی ہوتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس ”مینول“ میں درج ذیل باتیں کیوں کر آتیں۔ یہ اقتباسات دیکھیے:</p>
<blockquote>
<p>سنو، ہم رنڈیوں کے وجود کی بنیاد ہی ان باتوں پر ہے کہ کبھی تو چاہت میں اپنا آپ گنوا دیںاور کبھی کسی کو اپنی نفرت کی آگ سے جلا دیں۔۔۔ اب ایسی صورت میں اگر کبھی کسی رنڈی کے دل میں کسی کی سچی اور پاک محبت پید اہو جائے تو یوں سمجھو کہ اس کی زندگی دکھ کا گھروندا بن جاتی ہے۔</p>
<p>برے ارادے جس کے دل میں ہوتے ہیں، وہ تسلی کی باتیں بہت بناتا ہے اور سچے سیوکوں کو بڑی آسانی سے بھگا دیتا ہے۔ مرتا ہواشکاری کتاتو اگر اس میں سکت ہوگھٹ گھٹ کر جنگلی سور کو بھی چاٹنے لگے گا۔</p>
<p>لوگوں کے دل میں چاہے اپنی بھلی بیبیوں کے لیے کتنی ہی گہری چاہت کیوں نہ ہو، پھولوں کے تیروں والاچنچل دیوتاانھیں ایسی ناریوں کی طرف موڑ دیتا ہے جو چاہے جانے کے جوگ ہوتی ہی نہیں۔</p>
<p>پر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ کبھی کبھی اونٹ تیکھے تیز کانٹوں بھری جھاڑیوں پر منھ مارتے مارتے اتفاق سے شہد کے چھتے تک بھی جاپہنچتا ہے۔</p>
</blockquote>
<p>فنی اعتبار سے بھی میرا جی کے تراجم توجہ چاہتے ہیں۔ میرا جی نے تمام ترجمے انگریزی کی وساطت سے کیے، یہاں تک کی عمر خیام کی رباعیات کو بھی فٹز جیرالڈ کے انگریزی ترجموں کی اساس پر اردو میں ڈھالا۔ واحد زبان کے ذریعے کثیر شعری روایتوں تک رسائی جس قدرآسان تھی، ان کثیر روایتوں کی اصل تک رسائی اتنی ہی مشکل۔ ترجمہ اصل تک پہنچنے اور اسے اپنی زبان میں اس طور منتقل کرنے کا نام ہے کہ اصل کا ذائقہ باقی رہے۔ ذائقہ کا لفظ رواروی میں نہیں لکھا۔ جس طرح یہ ہماری حس کسی شے کی تلخی، تر شی، نمکینی، شیرینی، کڑواہٹ، کھارے پن کو محسوس کرتی ہے اسی طرح مختلف ادبی روایتوں کے اس سے ملتے جلتے ذائقوں کو ترجمہ نگار محسوس کراتا ہے۔ مشکل یہ ہوتی ہے کہ کچھ ادبی روایتوں میں ایسے ذائقے ہوتے ہیں، جن سے دوسری زبان ہی نا آشنا ہوتی ہے۔ تیکنیکی زبان میں کہیں تو ہر زبان کا ایک ’رجسٹر‘ ہوتا ہے اور اس رجسٹر کے آگے کئی ذیلی منطقے ہوتے ہیں۔ ایک ہی لفظ ایک زبان کے رجسٹر میں ایک معنی میں اور دوسری زبان میں دوسرے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً اردو میں بازیافت کا لفظ کھوئی ہوئی شے، گمشدہ متن، بھولے بسرے گیت کو پانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جب کہ فارسی میں یہی لفظ پرانی اشیا کو از سرنو کارآمد بنانے کے مفہوم میں برتا جاتا ہے۔ ’ایلین‘ انگریزی میں کسی دوسرے سیارے کی اجنبی مخلوق کے لیے جب کہ جرمن میں یہ کسی بھی غیر ملکی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی نہیں کسی کیفیت، احساس کے لیے ایک زبان میں کچھ لفظ ہوتے مگر کسی دوسری زبان میں اس طرح کے لفظ موجود ہی نہیں ہوتے۔ اسی طرح ایک ہی زبان کے قدیم، کلاسیکی زمانوں کے لفظوں کے مفاہیم بدل جاتے ہیں، اور اس سے بھی بڑھ کر کچھ شاعر روزمرہ اور لغت کی زبان ہی کو بدل دیتے ہیں۔ جیسے اقبال نے اسماے معرفہ کو شعریت بہ کنار کر دیا۔ میرا جی کے لیے آسان نہیں تھا کہ فرانسیسی، جرمن، جاپانی، چینی، اطالوی، سنسکرت، بنگالی زبانوں کے شعرا کو فقط انگریزی کے ذریعے اس طور اردو میں پیش کرتے کہ ان متعدد زبانوں کے ذائقے یا رجسٹر کو اردو کے رجسٹر سے ہم آہنگ کرتے۔ اس ضمن میں میرا جی کی مدد اگرکسی شے نے کی تو وہ ان کا شعری تخیل تھا جو ہمہ رنگ تھا؛یہ تخیل انھیں ہر دیس کے گیتوں اور شاعری کو محض اپنی روایت پر قیاس کرنے سے باز رکھتا تھا اور یہی تخیل انھیں غیر معمولی مطالعہ کرنے کی تحریک دیتا تھا۔ میرا جی کسی شاعر کا ترجمہ کرنے سے پہلے اس کے بارے میں نہایت تفصیل سے پڑھتے، اس کی شخصیت و شاعری پر فیصلہ کن انداز میں اثر انداز ہونے والے عوامل کا مطالعہ کرتے۔ متن کا اضح تنقیدی شعور، ان کے تخیل میں ایک ہیولا ابھارتا اور پھر اسی ہیولے کو وہ ترجمے میں ایک مجسم صورت دیتے۔ انھیں کچھ شاعروں سے طبعی مناسبت تھی، جیسے جرمنی کے ہائنے (دونوں نے اپنی محبوبائوں کی مقدس یادوں کو عمر بھر سینے سے لگائے رکھا)، آئر لینڈ کے طامس مور، فرانس کے بودلیر، سنسکرت کے امارو سے۔ چناں چہ ان کی شاعری کے اصل ذائقے تک رسائی میں انھیں زیادہ مشکل نہیں ہوئی۔</p>
<p>جہاں تک کٹنی متم کے ترجمے کا تعلق ہے تو اس کو پڑھتے ہوئے لگتا ہے کہ جیسے راست سنسکرت سے ترجمہ کیا گیا ہے۔ قدیم آریائی تہذیب میرا جی کی روح میں رچی بسی تھی۔ وہ اس تہذیب کی اساس اور علامتوں کا نہ صرف شعور رکھتے تھے، بلکہ ان کے تصورِ کائنات کا یہ ایک اہم جزاور ان کے احساسات میں گھلی ملی تھی۔ نگار خانہ کے لفظ لفظ سے قدیم آریائی تہذیب کی خوشبو محسوس ہوتی اور اس تہذیب کا زندگی، جنس، عورت سے متعلق وژن درشن دیتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اردو زبان کا بنیادی مزاج بھی کہیں مجروح نہیں ہوتا۔ اصل یہ ہے کہ میرا جی نے اس کتاب میں جس اسلوب کو روا رکھا ہے، وہ ان کے ایک سیاسی اعتقاد سے پھوٹا ہے۔ قومیت پرستی کے وہ متصادم بیانیے جو زبانوں کی تفریق سے ایک الا ئو بھڑکائے ہوئے تھے، ان میں اردو اپنی اس اصل سے محروم ہوتی جا رہی تھی جو اس زبان کی مقامی ہندی اساس اور ہند اسلامی تہذیب کے تال میل سے وجود میں آئی تھی۔ میرا جی کا اعتقاد اردو کو اس کی اصل سے وابستہ رکھنا تھا اور اس کی سیاسی معنویت گہری تھی۔ اسی لیے میرا جی نے خود لکھا کہ</p>
<blockquote>
<p> اسے اس زبان میں ترجمہ کیا ہے جسے پڑھنے کے بعد کل ہند زبان کے تنازع کا امکان ہی باقی نہیں رہتا۔</p>
</blockquote>
<p>یہاں میرا جی کے ترجمے اور ای پی ماتھرس کے ترجمے کا تقابل دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ پہلے ماتھرس کا ترجمہ دیکھیے:</p>
<blockquote>
<p><annotation lang="en">In the hundred yeras which are given to us, the best thing of all is the body, for it is the place of the first encounter; the fair on eadvances her unquiet heart, and he ardently regards her coming.</annotation></p>
<p><annotation lang="en">Did he make you to be a second Nala? Is all the magnificence of Spring within you? Are you Kandarpa walking again among men, with a quiver laced with flowers?</annotation></p>
</blockquote>
<p>اب میرا جی کا ترجمہ دیکھیے:</p>
<blockquote>
<p>جیون کے سو سالوں میں سب سے اچھی چیز جو ہمیں ملتی ہے وہ ہے ہمارا شریر، کیوں کہ یہی ہمارے پہلے آمنے سامنے کا ٹھکانہ ہے، اس ٹھکانے پر سندری اپنے چنچل من کو آگے بڑھاتی ہے اور اسی ٹھکانے پر پریمی بڑی چاہ کے ساتھ اسے آگے بڑھتے دیکھتا ہے۔</p>
<p>کیا تمھیں بنانے والے نے تمھیں ایک دوسرے نل کے روپ میں ڈھالا ہے؟کیا بسنت رت کی ساری آن بان تم ہی میں رچی ہوئی ہے؟کیا منش جاتی میں پھولوں سے سجا سجایا تیر لیے ہوئے تم کوئی مدن دیوتا ہو؟</p>
</blockquote>
<p>دونوں ترجموں کا فرق ظاہر ہے۔ میرا جی کے ترجمے میں شریر، سندری، روپ، بسنت رت، منش جاتی، مدن دیوتا جیسے الفاظ آریائی تہذیب اور اردو کی تہذیب دونوں کے رجسٹر میںمشترک ہیں، مگر انگریزی میں نہیں۔ مفہوم کی سطح پر ایک دوسرے کے تقریباً مساوی ہونے کے باوجود اردو متن کہیں زیادہ سنسکرت اصل کے قریب محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ہم دو نتیجے کر سکتے ہیں۔ ادبی متن، مفہوم سے سوا ہوتا ہے اور ترجمہ اگر صرف مفہوم کو پیش کرے تو وہ جتنا کہتا ہے، اس سے کہیں زیادہ اور بعض صورتوں میں کئی اہم باتیں کہنے سے قاصر رہتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ادبی متن میں مفہوم کے علاوہ، ایسے احساسات ہوتے ہیں، جنھیں کوئی ثقافت صدیوں پر پھیلے عمل کے ذریعے کچھ خاص علامتوں میں محفوظ کرتی ہے۔ ترجمہ ان علامتوں کے مترادفات تلاش یا وضع کرنے میں جاں توڑ کوشش ضروکر تا ہے، مگر یہ مترادفات اصل متن کے احساسات کو نہیں، نئے احساسات کو پیش کرتے ہیں۔ ہم سہل نگار بن کر اسے ترجمے کی ناکامی سے تعبیر کر سکتے ہیں، لیکن اگر ہم اپنے دل میں انسانی مساعی کے احترام کا ہلکا سا جذبہ بھی رکھتے ہوں تو اسے دو تہذیبوں کا مکالمہ قرار دیں گے اور مکالمہ لازمی اور فطری اختلافات برقرار رکھتے ہوئے مشترک باتوں کی مخلصانہ تلاش کے سوا کیا ہے!</p>
</section>
</body>
</document>