-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 7
/
0028.xml
264 lines (264 loc) · 56.7 KB
/
0028.xml
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
<document>
<meta>
<title>میرا جی کی فکری جہتیں</title>
<author>
<name>سعادت سعید</name>
<gender>Male</gender>
</author>
<publication>
<name>Bunyad, Volume 4</name>
<year>2013</year>
<city>Lahore</city>
<link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/10_sadat_saeed_bunyad_2013.pdf</link>
<copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder>
</publication>
<num-words>6399</num-words>
<contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages>
</meta>
<body>
<section>
<p>میرا جی کی نظمیں کائنات کے ازلی و ابدی سلاسل کی علامتی تعبیرو تظہیر میں یکتا و نادر طرز بیان کی حامل ہیں۔ انھوں نے روشنی کی تلاش میں ان اندھیروں کا سفر بھی کیا ہے جنھیں عام طور پر اخفائے حال کی مہر ثبت کرنے یا بالائے طاق رکھنے میں عافیت جانی جاتی ہے۔ ستر پوش تہذیب کا ننگا پن کاروباری مصلحتوں کے لیے تو جائز قرار پا چکا ہے لیکن عام انسان کو سرعام اپنے اندر کے تعفن کو باہر نکالنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ میرا جی نے مصلحت آمیز خیر کے مقابلے میں شر انگیز راستی کو اپنانے کا اعلان کیا۔ یہ شر انگیز راستی کیا ہے۔ خودمیرا جی کی زبان میں ملاحظہ ہو:</p>
<blockquote>
<p>بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا جنسی پہلو ہی میری توجہ کا واحد مرکز ہے۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میںقدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں۔ اور جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے، اس لیے رد عمل کے طور پر میں دنیا کی ہر بات کو جنس کے اس تصور کے آئینے میں دیکھتا ہوں جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو۔۔۔۔ میرا آدرش ہے۔</p>
</blockquote>
<p>روسو <annotation lang="en">(Jean-Jacques Rousseau)</annotation> کے معاہدہ عمرانی میں موجود فطری زندگی کے تصور کو یاد کیجیے کہ جس میں اس حقیقت کے رخ سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ انسان آزاد پیدا ہوا تھا لیکن تہذیب و تمدن نے اسے پا بہ زنجیر کر دیا ہے۔ اور پھر ہیولاک ایلس <annotation lang="en">(Henry Havelock Ellis)</annotation> کی تحقیقات اور فرائڈ <annotation lang="en">(Sigmund Freud)</annotation> کی انٹر پریٹیشن آف ڈریمز <annotation lang="en">(The Interpretation of Dreams)</annotation> کو یاد کیجیے، بقیہ ڈھکا چھپا سچ بھی طشت از بام ہو جائے گا۔ دیوی اتھینہ <annotation lang="en">(Athena)</annotation> کے مندر میںمیڈوسا <annotation lang="en">(Medusa)</annotation> کا ریپ، ہیلن <annotation lang="en">(Helen)</annotation> کی حکایات، الف لیلیٰ میں بادشاہوں کی بدکار منکوحائیں، یوسف سوداگر کی داشتہ شہزادی، مادام بواری <annotation lang="en">(Madame Bovary)</annotation>، گستاوفلابیئر <annotation lang="en">(Gustave Flaubert)</annotation>، لیڈی برڈ <annotation lang="en">(Ladybird)</annotation>، لارنس <annotation lang="en">(D.H.Lawrence)</annotation>، لیڈی چیٹرلیز لور <annotation lang="en">(Lady Chatterley's Lover)</annotation>، سعادت حسن منٹو کے تلخ انکشافات، خان فضل الرحمن کے مسلک لذتیہ کے تحت لکھے گئے حقائق اور اپنے مفتی جی کے مفتیانے میں ہونے والی مفتو مفت جسمانی کار گزاریاں اور پھر علی پور کا ایلی، واجدہ تبسم کا ”شہر ممنوع“ اور عصمت چغتائی کا ”لحاف“!</p>
<p>اے ”طلاموس کبیر“ ہمارے علم میں مزیداضافہ فرما اور ن۔ م۔ راشد کو کمسن جہاں زاد کے عذاب سے بچا۔ ان کی شاعری میں سفید فام عورت سے لیا جانے ولا انتقام مسز سلامانکا کی آنکھوں میں دھول بن کر جا گھسا ہے۔ وارث شاہ نے ہیر رانجھا میں موج میلہ لگایا۔ اگر اس امر کو تحقیقی غلطی نہ جانا جائے تو میر اثرؔ نے خواب و خیال میں میرا جی کے آدرشوں ہی کو ثابت کیا ہے اور ”سحرالبیان“ (تعشق کی آپس میں باتیں کریں)، ”گلزار نسیم“ میں ”ہے ہے مرا پھول لے گیا کون۔ ہے ہے مجھے خار دے گیا کون“۔ یعنی ہے ہے مرا گل لے گیا کون۔ ہے ہے مجھے جل دے گیا کون! اور روایتی شاعروںکے تصوف میں یہ بھی جائز تھا ”گھر آ یا تو آج ہمارے کیا ہے یاں جو نثار کریں۔ الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں“ اور اپنے چچا غالب کیا کسی ڈومنی سے ہمکلام ہو رہے ہیں اللہ اللہ! ”غنچہ نا شگفتہ کو دور سے مت دکھا کہ یوں۔ بوسے کو پوچھتا ہوں میں منہ سے مجھے بتا کے یوں“ الاماں الحفیظ کچھ فلمیں یاد آگئیں ’لولیتا‘ <annotation lang="en">(Lolita)</annotation>، ’فینی ہل‘ <annotation lang="en">(Fanny Hill)</annotation>، ’اٹ سٹارٹڈ ود اے کس‘ <annotation lang="en">(It Started with a Kiss)</annotation> ’ارمالا ڈوس‘ <annotation lang="en">Irma la Douce</annotation>، کہاں سے آئے یہ جھمکے؟، کس نے دیے یہ جھمکے ؟اس کے بدلے میں کیا کوئی من مرضی سے امرائو جان اد انہیں بن سکتی؟، غلام عباس کی ”آنندی“ نے سب کچھ کھول کے رکھ دیا۔ نظیر اکبر آبادی کی پکار سنیے، ”دل میں کسی کے ہرگز نے شرم نہ حیا ہے۔ آگا بھی کھل رہا ہے پیچھا بھی کھل رہا ہے“ تو صاحبو پردہ نہ جانے کس کی عقل پر پڑا ہے؟ اور میں نے زیادہ تر اس سیناریو پر توجہ دی ہے کہ جس میں ابھی ہماری لڑکیوں نے انگریزی پڑھنے کے بغیر ہی بہت سے سین دکھادیے ہیں۔ عینی آپا کچھ چاندنی بیگم کے بارے میں بھی ارشاد ہو جائے۔ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا۔</p>
<p>اے ”طلاموس کبیر“ میرا جی کی خطائیں بھی بخش کہ انھوں نے اگر ڈھول کا پول کھولا ہے تو ہمیں پول کا ڈھول کھولنے کی تو اجازت ہونی چاہیے یعنی ”عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے میرا کام۔ مجنوں کو بر اکہتی ہے لیلیٰ مرے آگے“ اور یہ شکر ہے کہ لیلیٰ مجنوں کی منکوحہ نہیں تھی ورنہ تو یہ شاعر بھی حدود کی زد میں آتے آتے بچے ہیں۔ بایں ہمہ صرف میرا جی کو کارنر نہیں کیا جا سکتا۔ دنیا ایک بڑا حمام ہے جس میں ہر شخص کو یہ لگتا ہے کہ دوسرے ننگے ہیں اور اس نے طالبانی برقعہ اوڑھ رکھا ہے یعنی نہ اس کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مرد ہے کہ عورت!انتظار حسین صاحب اپنی نانی اماں سے کہانیاں سنتے رہے اور ہم اپنی نانی کے افغانی برقعے میں گھسے دم دبائے دم سادھے بیٹھے رہے۔ کچھ کرنے کی ہمت نہ ہوئی، تو اتنا ضرور سمجھا کہ دنیا کے حمام میں دوسرے لوگ مساج کروا رہے ہیں۔ میرا جی کی نظم ”برقع“ اس ضمن میں ہماری رہنمائی کر سکتی ہے:</p>
<blockquote>
<verse>
آنکھ کے دشمنِ جاں پیراہن
آنکھ میں شعلے لپکتے ہیں، جلا سکتے نہیں ہیں ان کو
آنکھ اب چھپ کے ہی بدلہ لے گی
نئی صورت میں بدل جائے گی!
</verse>
</blockquote>
<p>تو جناب تہذیب و تمدن کے برقعے کے نیچے کیا کچھ ہو رہا ہے؟ چوری چھپے کی وارداتیں !کالج نامے سیڑھی نامے اور پھر نامے ہی نامے۔ میرا جی کہتے ہیں:</p>
<blockquote>
<verse>
آنکھ اب چھپ کے ہی بدلہ لے گی،
جھلملاتے ہوئے پتے تو لرزتی ہوئی کرنوں کی طرح سایوں میں کھو جائیں گے
اور بھڑکتے ہوئے شعلے بھی لپکتے ہوئے سو جائیں گے،
دل میں سوئی ہوئی نفرت سگِ آوارہ کی ماننداندھیرے میں پکار اٹھے گی
ہم نہ اب آپ کو سونے دیں گے۔
اور چپکے سے یہ آسودہ خیال آئے گا
آج تو بدلہ لیا ہم نے نگاہوں سے چھپے رہنے کا۔
لیکن اب آنکھ بھی بدلہ لے گی۔
نئی صورت میں بدل جائے گی!
</verse>
</blockquote>
<p>میرا جی نے کہا سب کچھ جنس تو نہیں ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں ہے لیکن زمین، انسان، زندگی اور کائنات کے اور بھی بہت سے مظاہر ہیں ان کا کھوج بھی تو لگانا ہے سو ازلی و ابدی اندھیروں، تنہائیوں، خلوتوں اور جدائیوں کا حساب کتاب بھی تو رکھنا ہے۔ ڈارون سے کیا گلا، میرا جی کہتے ہیں ”میں کہتا ہوں اجالے کو کون پسند نہیں کرتا۔ جب سے یہ دنیا بنی ہے۔ جب سے آدم کی اولاد اپنے جد امجد کے گناہ کی پاداش میں کرہ ارضی پر رہنے لگی ہے۔ جب سے بندر پیڑ کی ٹہنیوں سے اتر کر زمین پر چلنے پھرنے لگا ہے۔ اجالے اور اندھیرے کی کشمکش جاری ہے۔“ میرا جی نے اس خیال کی شرح میں کئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی شاعری میں اندھیروں، اجالوں اور سایوں کے مظاہر اپنے عروج پر نظر آتے ہیں۔ بقول ن۔ م۔ راشد:</p>
<blockquote>
<verse>
میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
نارسا ہاتھ کی نمناکی ہے
ایک ہی چیخ ہے فرقت کے بیابانوں میں
ایک ہی طول المناکی ہے
ایک ہی روح جو بے حال ہے زندانوں میں
ایک ہی قید تمنا کی ہے
عہد رفتہ کے بہت خواب تمنا میں ہیں
اور کچھ واہمے آئندہ کے
پھر بھی اندیشہ وہ آئینہ ہے جس میں گویا
میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
کچھ نہیں دیکھتے ہیں
محور عشق کی خود مست حقیقت کے سوا
اپنے ہی بیم و رجا، اپنی ہی صورت کے سوا
اپنے رنگ، اپنے بدن، اپنے ہی قامت کے سوا
اپنی تنہائی جانکاہ کی دہشت کے سوا
دل خراشی و جگر چاکی و خوں افشانی
”ہوں تو ناکام پہ ہوتے ہیں مجھے کام بہت“
”مدعا محو تماشائے شکست دل ہے“
”آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے“
”رات کے پھیلے اندھیرے میں کوئی سایہ نہ تھا“
چاند کے آنے پہ سائے آئے
سائے ہلتے ہوئے، گھلتے ہوئے کچھ بھوت سے بن جاتے ہیں
(میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
اپنی ہی ذات کی غربال میں چھن جاتے ہیں)
دل خراشیدہ ہو خوں دادہ رہے
آئنہ خانے کے ریزوں پہ ہم استادہ رہے
چاند کے آنے پہ سائے بہت آئے بھی
ہم بہت سایوں سے گھبرائے بھی
میر ہو، مرزا ہو، میرا جی ہو
آج جاں اک نئے ہنگامے میں در آئی ہے
ماہ بے سایہ کی دارائی ہے
یاد وہ عشرت خونناب کسے؟
فرصت خواب کسے
</verse>
</blockquote>
<p>ن۔ م۔ راشد کو فرصت خواب تھی یا نہیں؟ اس بات کو سر دست ادھورا چھوڑتے ہیں لیکن میرا جی نے اپنے عہد کے علمی، ادبی، سیاسی اور تہذیبی منظر نامے پر گہری نظر ڈالی ہے۔ یہ منظر نامہ ان کے لہو کی گردشوں میں شامل ہو کر صفحہ قرطاس پر نقش ہو جاتا ہے۔ اور وہ کہتے ہیں: ”میں اپنے ملک کے موجودہ سماج کا ایک جیتا جاگتا فرد بھی ہوں۔ میری خواہشات اسی سماج کی تابع ہیں۔ میرا دل پرانی فضا میں سانس لیتا ہے مگر میری آنکھیں اپنے آس پاس اپنے سامنے دیکھتی ہیں۔ اور اس مشاہدے کا نقش میری نظموں میں ہر جگہ موجود ہے۔“ </p>
<heading>استعارے کا جادو اور میرا جی کے سماجی معنی</heading>
<p>ممتازحسین نے اپنے مضمون ”رسالہ در معرفت استعارہ“ میں مابعد الطبیعیاتی منطق کی احتجاجی صورت حال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔</p>
<blockquote>
<p>اگر آج آرٹ عہد عتیق کے طلسمات اور اساطیر اور قرون وسطی کی اخلاقیات سے آزاد ہے تو کل وہ باقیات قرون وسطی اور طبقات نظام کی سیاسیات سے بھی آزاد ہو گا۔ یہ ایک عجیب کشمکش ہے لیکن اس کشمکش سے وہ سحر اور وہ آرٹ پیدا ہوں گے جس کا خواب یورپ کے رومانی شعرا نے اپنی تحریک کے عروج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ رومانی شعرا نے سرمایہ دارانہ رشتوں کی مخالفت میں ہی شاعری کی ہے۔ انھوں نے اپنے احساسات اور ندائے تخیل سے اس بات کی تصدیق کی کہ انسان ایک ہے، وہ ناقابل تقسیم ہے۔ وہ انسان ہے نہ کہ آقا اور غلام، زمیندار اور کسان، کام دار اور سرمایہ دار، منشی اور کوتوال۔ اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے اس بغاوت کو بہ قوت جذبہ پروان چڑھایا اور عقل کی مخالفت کی۔ لیکن جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انھوں نے سرمایہ دارانہ طبقے کی عقل کے خلاف بغاوت کی، نہ کہ انسانی عقل کے خلاف ورنہ ورڈز ورتھ اپنے تخیل کو عقل مرتفع کا نام کیوں دیتا۔ انھوں نے اس عقل کے خلاف بغاوت کی جو اسیر سود و زیاں تھی۔ جو انفرادی تگ و دو کی بہیمانہ قدر کو عام کیے ہوئے تھی اور جو احساسات و جذبات کی اطلاعات سے اس لیے کنارہ کش تھی کہ ان کا فیصلہ تاجر کے استحصال کے خلاف تھا۔</p>
</blockquote>
<p>میرا جی نے اپنے دور کی نیم صنعتی اور نیم جاگیردارانہ زندگی کے تناظر میں جو شاعری کی ہے وہ بھی بہ اعتبار جوہر احتجاج اور بغاوت کے آثار سمیٹے ہوئے ہے۔ انھوں نے خواب غیر معمولی جذبات اور حقیقت کے عناصر سے اپنی نظموں کا فیبرک تیار کیا۔</p>
<p>ممتاز حسین کے اس بیان کی روشنی میںمعاملہ یوں ہے کہ استعارے کی دنیا میں جو مستعار منہ کے اوصاف کو مستعارلہ کے اوصاف میں جمع کر دیا جاتا ہے اور مستعارلہ کا ذکر گرا دیا جاتا ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ مستعارلہ مستعارمنہ سے اوصاف حقیقی یا اپنی معنویت میں متحد ہو جاتا ہے۔ لیکن استعارہ مستعار جو ٹھہرا اس میں یہ اتحاد جزوی ہوتا ہے نہ کہ کلی، کیونکہ مستعار منہ مستعارلہ سے مماثل ہوتے ہوئے بھی متغائر ہوتا ہے۔ اس لیے اس اتحاد کے باوصف ان میں تخالف بھی موجود رہتا ہے۔ مستعارمنہ کے حقیقی معنی کی تردید مستعارلہ کا حقیقی معنی کرتا ہے۔ اور یہ ان کے اسی اتحاد اور تخالف کا نتیجہ ہے کہ اصل معنی مستعار منہ سے تجاوز کرتا ہے یا جست کرتا ہے، جو ایک ترکیبی معنی ہوتا ہے۔ یہ معنی جو حقیقت اور مجاز کے اتحاد و تخالف سے پیدا ہوتا ہے، اصل حقیقت کو توسیع دیتا ہے نہ کہ اسے قطعیت کے ساتھ محدود کرتا ہے۔ حقیقت خواہ کسی ذرے کی ہو یا انسان کی، اپنے حجابات میں لامحدود ہے کیونکہ وہ کائنات کی حقیقت سے بے شمار رشتوں میں مربوط ہے۔ کسی بھی حقیقی تجربے کی حرف بہ حرف سچائی کو صرف استعارے ہی کے ذریعے پیش کیا جا سکتا ہے جو اس کو قطعیت کے ساتھ محدود نہیں کرتا بلکہ اس کی لامحدودیت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ اشارے کو یقینا تابناک ہونا چاہئے۔ لیکن اس میں وہ ابہام بقول غالبؔ تو رہے گا جس پر تشریح قربان ہوتی ہے۔ کیونکہ حقیقت کا لامحدود پہلو ہمیشہ مبہم ہوتا ہے۔ یہاں مسئلہ حسن معنی کے امکانات پر مر مٹنے کا ہے نہ کہ متعین تصورات میں گھر کے رہ جانے کا۔ استعارہ حقیقت کا آئینہ ہوتا ہے، نہ کہ اس کا پردہ حجاب۔ اس کی رمزیت حقیقت کی طرف ایک جنبش نگاہ کے کرنے میں ہے نہ کہ اس کے پردہ خفا کے بننے میں۔ حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھانے ہی کا نام استعارہ ہے۔ جہان معانی کو براہ راست منکشف کرنے کے لیے ذہن آدم نے اگر اسباب نطق سے کوئی آلہ کار وضع کیا ہے تو وہ استعارہ ہی ہے۔ ممتاز حسین کی ان معروضات کی روشنی میں میرا جی کی نظموں میں استعمال ہونے والے استعاروں کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حقیقت کو پیش کرنے کے استعاراتی طریقے کو توسیعی انداز سے استعمال کیا ہے اور اردو نظم کو جدید علامتی شعری مزاج کے خمیر میں خوش اسلوبی سے گوندھا ہے اس ضمن میںاگر کسی قاری کو ابہام یا الجھائو کی شکایت پیدا ہوتی ہے تو اسے پرانے تشبیہی اور استعاراتی طریق کار کے تالاب سے باہر آ کر میرا جی کی شاعری کا مطالعہ کرنا ہو گا۔</p>
<blockquote>
<verse>
کیسے تلوار چلی، کیسے زمیں کا سینہ
ایک لمحے کے لیے چشمے کی مانند بنا
پیچ کھاتے ہوئے یہ لہر اٹھی دل میں مرے
کاش! یہ جھاڑیاں اک سلسلۂ کوہ بنیں
دامنِ کوہ میں میں جا کے ستادہ ہو جائوں
ایسی انہونی جو ہو جائے تو کیوں یہ بھی نہ ہو
خشک پتوں کا زمیں پر جو بچھائے بستر
وہ بھی اک ساز بنے ساز تو ہے، ساز تو ہے
نغمہ بیدار ہوا تھا جو ابھی، کان ترے
کیوں اسے سن نہ سکے سننے سے مجبور رہے
پردۂ چشم نے صرف ایک نشستہ بت کو
ذہن کے دائرۂ خاص میں مرکوز کیا
یاد آتا ہے مجھے کان ہوئے تھے بیدار
خشک پتوں سے جب آئی تھی تڑپنے کی صدا
اور دامن کی ہر اک لہر چمک اٹھی تھی
پڑ رہا تھا کسی تلوار کا سایہ شاید
جو نکل آئی تھی اک پل میں نہاں خانے سے
جیسے بے ساختہ انداز سے بجلی چمکے
</verse>
</blockquote>
<p>اس نظم میں آگے چل کر میرا جی نے جل پری، دامن، آلودہ، روپوشی، جھاڑیاں، دلھن، دولھا، نہاں خانہ، گرم بوندیں، آبی، پائوں، دھارا گھٹا، شق ہونا، برق رفتاری، کرمک بے نام، بنسری، گوالا، دھندلی نظر، نمناکی اور بہت سے دوسرے الفاظ کے توسیعی معانی سے زندگی کے بے فیض اور بے مصرف ہونے کا جو نقشہ کھینچا ہے اسے استعارے کے محدود اور حقیقی معانی کے رسیا نقاد استمنا بالید تک محدود کر کے میرا جی کی جنسی بے راہ روی پر اپنی جاگیردارانہ اخلاقیات کی مہر ثبت کرنے کا جتن کرتے ہیں۔ جب خواب میں خیال کو کسی سے معاملہ ہو جاتا ہے اور موجہ گل کو نقش بوریا پایا جاتا ہے تو استعارے کے توسیعی معانی اسے لاف دانش غلط و نفع عبادت معلوم یا ہرزہ ہے نغمہ زیر و بم ہستی و عدم کے خیالات سے ملا دیتے ہیں یوں انفرادی عمل اپنے توسیعی معنی کے حوالے سے کائناتی ہو جاتا ہے۔ اور میرا جی کی یہ نظم ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے کے ورائ الحقیقت معانی کا ابلاغ کرتی نظر آتی ہے۔</p>
<p>میرا جی کی شاعری اردو نظم کے ارتقائی سفر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی نظمیں راشد کی نظموں کی طرح اردو شاعری کی روایت سے دوہرے انحراف کی حامل ہیں، یعنی انھوں نے ایک تو غزل اور اس کے لوازمات سے پورے طور پر گریز کیا ہے اور دوسرے حالی کے بعد بننے والی اردو نظم کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ میرا جی نے اردو نظم کے فکری اور احساساتی انجماد کو دور کرنے کے لیے اپنی نظموں میں انکشاف ذات کے انفرادی اظہار اور خارجی ماحول کے حسیاتی موادکی ترسیل کی۔ یوں اردو نظم ایک نئے لہجے سے آشنا ہوئی۔ انھوں نے آزاد نظم کے تجربوں کے ساتھ ساتھ پابند نظم کے نئے امکانات کی دریافت بھی کی۔ ان نئے تجربوں کا بنیادی مقصد احساسات و جذبات کی معنوی وسعتوں کو نظم کی پوشاک بخشنا تھا۔ ان کی نظموں میں سادہ معنوی فکری اور جذباتی رشتوں کے سماجی عمل کی بجائے تجربات و کوائف کی پیچیدہ الجھی ہوئی اور علامتی شکلیں ملتی ہیں۔ ان کے عہد کے مروجہ شعری تجزیوں کے اصول ان کی نظموں کی تشریح و توضیح سے قاصر تھے۔ ان نظموں کی تفہیم کے لیے نئے طریق کار کی تشکیل کی ضرورت تھی اس عہد میں ان کی نظموں کو مبہم، پیچیدہ اور الجھی ہوئی کہا گیا۔ آنے والے عہد نے ان کی تفہیم کے لیے تنقیدی اصول وضع کیے۔ عوام کے لیے ہیئت کے تجربے نامانوس تھے۔ میرا جی کے تجربوں کے انوکھے پن نے قاری کے لیے مشکل کے اور سامان پیدا کیے۔ میرا جی فرانسیسی علامت پرستوں، سرریلزم، یونگ کے اجتماعی لاشعور، فرائیڈ کی جنس اور لا شعور کی تحریکات کا مطالعہ کر چکے تھے۔ انھوں نے ہندی دیو مالا اور ہندی فلسفے سے بھی گہرا استفادہ کیا تھا۔ فرانسیسی علامت پسندوں نے انہیں ذاتی اور انفرادی ذات کی شناخت کا جوہر عطا کیا۔ سرریلزم کی تحریک نے انہیں آزاد تلازمات <annotation lang="en">(Free Association)</annotation> سے روشناس کرایا۔ فرائیڈ اور یونگ نے ان کے ذہن کے نفسیاتی سانچے کی تعمیر کی۔</p>
<p>میرا جی نے اپنی ذاتی شناخت کے حوالے سے معروضی اشیا کا مطالعہ کیا۔ ان کی ذاتی زندگی ادب میں ایک اسطورکی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس بات سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے کہ ادب میں سب سے زیادہ قابل توجہ شخصیتیں وہ ہوتی ہیں جن کے گرد جھوٹ اور الزامات کے جال بنے جاتے ہیں۔ ایسے فن کار نیم اساطیری ہوتے ہیں، جن کے حقیقی کردار ہمیشہ کے لیے بے سروپائی کی اوٹ میں چھپ جاتے ہیں۔ میرا جی کی شعری شخصیت کے بارے میں یہ بات بڑے ہی پتے کی ہے میرا جی کے ہاں رویے کے غیر معتدل اور پراسرار ہونے کے رجحانات ملتے ہیں۔ ان کی ذہنی الجھنوں نے اصل مسرت اور اصل حقیقت کے باہمی تصادم ہی سے جنم لیا تھا۔ تمدنی انا ان کی فطری انا سے متصادم ہوتی ہے۔ ان کی اندھی خواہشوں اور فرد کی جبلی زندگی پر سماجی دبائو نے انہیں ذہنی انتشار کا شکار بنایا۔ اس قسم کا انتشار فرد میں اذیت پسندی کے رجحانات پیدا کرتا ہے اور یہ کیفیت میرا جی کی شاعری میں عمومی ہے۔ میرا جی اپنی زندگی میں باپ کے مشفقانہ رویے سے محروم رہے۔ ماں نے انہیں محبت دی۔ ان کے ہاں ماں کی یہ محبت نفسیاتی الجھنوں کے کئی در وا کرتی ہے اور وہ روح کی ان گہرائیوں تک جا پہنچتے ہیں جہاں تہذیب اور جنگل کے قوانین کا تصادم عمومی رنگ اختیار کر لیتا ہے۔</p>
<p>میرا جی نے تجزیے، تفتیش اور جستجو کے میلانات سے استفادہ کرتے ہوئے نامعلوم کی اتھاہ گہرائیوں کو معلوم کی پوشاک بخشنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے شعور و لا شعور کے میدانوں اور دلدلوں میں بسی کائنات کی نقاب کشائی کا فریضہ سر انجام دیا۔ وہ عدم کو وجود میں لانے اور غیب کو پردہ شہود پر لانے کے عمل میں مصروف رہے اور اپنے جذبات کی بعض فکری بنیادوں کو بڑی عمدگی سے شعر کا لباس عطا کیا۔</p>
<p>میرا جی کی نظم، ”ارتقا“، ”انجام“ اور ”خدا“ میں اپنے عہد کے معاشرتی مسائل، ارد گرد پھیلی زندگی کے انحطاطی پہلو اور ذاتی دکھ ہم آہنگ ہو کر ابھرتے ہیں۔ ان کی نظم عہد کے ساتھ ساتھ ان کی ذاتی نا آسودگی کی صورت حال کی وضاحت بھی کرتی ہے۔ اس نظم میں نظم کی تین ہیئتیں (معریٰ، پابند اور آزاد) استعمال ہوئی ہیں۔ پابند حصہ یاد کے عمل کی پیش بندی کرتا ہے۔ معریٰ حصے میں خیال دھیرے دھیرے پھیلتا ہے۔ تیسرا حصہ آزاد ہے، جس میں یاد کا مرکز گم ہو جاتا ہے۔ خیال ہمہ گیری اور ہمہ جہتی کے پہلوئوں سے ہمکنار ہوتا ہے۔ چناںچہ موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے ان کی یہ نظم بڑی کامیاب ہے۔ ان کے مجموعے تین رنگ میں نظم ”سمندر کا بلاوا“ بڑی عمدہ نظم ہے۔ سمندر اشیا کا مامن ہے۔ ہر شے اس میں سے نمودار ہوتی ہے اور آخر الامر اسے اسی میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ صحرا کی لامحدود وسعتیں پہاڑوں کی قوتیں اور گلستان کے ذخیرے سمندر کے بلاوے کے منتظر ہیں۔ جب سمندر کا بلاوا آتا ہے وہ اس میں جا ملتے ہیں۔ سمندر کی علامت بیک وقت خالق کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ موت کی علامت بھی ہے۔ وہ اشیا کو جنم بخشتا ہے اور زوال کا پیغام بھی سناتا ہے۔ سمندر انسانی لاشعور کی طرح تاریک، ہمہ گیر، وسیع اور پھیلا ہوا ہے۔ میرا جی کے ہاں استعارہ علامت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اگرچہ تمام شاعرانہ علامات بجائے خود استعارے ہوتی ہیں یا استعاروں سے پیدا ہوتی ہیں لیکن علامت کو بہر طور استعارے پر فضیلت حاصل ہے کیونکہ استعارہ صرف اس وقت علامت کا روپ اختیار کرتا ہے جب شاعر اس کے ذریعے کوئی ایسا مثالی مضمون جو اور وسیلوں سے ادا نہ کیا جا سکے، بیان کرے۔ استعارہ اس وقت علامت بنتا ہے جب وہ اظہار کا واحد ذریعہ ہو۔ استعارہ جب علامت کی حدود میں آتا ہے تو اسے تفاعلی استعارہ کہا جاتا ہے۔</p>
<p>میرا جی کے ہاں علامت کے استعمال کی بہترین مثال ان کی نظم ”ابولہول“ ہے جس میں ابولہول کو ماضی کی علامت قرار دے کر اسے حال کے لمحوں کی دہشت اور خوف سے آزاد بتایا گیا ہے۔ پرانی قدروں سے چمٹے ہوئے لوگ نئے زمانے کے احساس سے بے خبر، اب بھی بے جان ابولہول کی طرح زندگی کے صحرا میں ایستادہ ہیں۔</p>
<p>بیسویں صدی کے انسان کا آشوب جس صورت حال کی پیداوار تھا اس سے میرا جی کو شدید اکتاہٹ ہوتی تھی۔ سائنسی و صنعتی ایجادات، نئے نئے فکری انکشافات، جنگی تباہ کاریاں اور بین الاقوامی سیاست کی ریشہ دوانیاں یہ سب کچھ نئے عہد کے انسان کو فکری و جذباتی آشوب میں مبتلا کر رہا تھا۔ اخلاقی و نظریاتی انحطاط و زوال انسانی معاشروں کے سکون اور اطمینان میں تعطل پیدا کر رہا تھا۔ میرا جی شاعر تھے۔ شاعر جو خالق کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے حواس خمسہ ہر تبدیلی کو باریک بینی سے اخذ کرتے ہیں۔ چناںچہ انہیں محض داخلی اور باطنی حوالوں کا شاعر کہنا ان کی شاعری کے ایک بڑے حصے سے زیادتی کا مرتکب ہونا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد کی سماجی صورتحال کا گہرا ادراک رکھتے تھے۔ اس کا ثبوت ان کے نثری مضامین سے بھی دستیاب ہوتا ہے۔ انھوں نے بسنت سہائے کے فرضی نام پر بعض سیاسی و سماجی مضامین لکھے جن کے موضوعات ملکی اقتصادی مسائل، غیر ملکی سیاسی مسائل، عام سیاسی مسائل، غیر ملکی شخصیات اور دنیا بھر کے معاشرتی حالات سے متعلق تھے۔ انھوں نے اپنے عہد کے مسائل کا جس گہری بصیرت سے جائزہ لیا تھا یہ مضامین اس کی واضح مثال ہیں۔ ان مضامین کے عنوانات تھے ”ہندوستانی تحریک کا مسئلہ“، ”جاپان میں مزدوروں کی حالت“، ”بحرالکاہل کا سیاسی مدوجزر“، ”مشرق و مغرب کی جمہوریت کا نازک دور“، ”ہٹلر اور مسولینی جدید روشنی میں“، ”چین کا مکتی داتا“۔ یہ سب مضامین ادبی دنیا کے مختلف شماروں میں چھپے تھے۔ ان کی شدید داخلی کیفیات پر بھی ان کے خارجی مشاہدے تجزیے اور مطالعے کی گہری چھاپ ہے۔ وہ نامعلوم کو معلوم کا درجہ خلا میں معلق ہو کر نہیں دیتے۔ بلکہ ان کے لیے نئی احساساتی و جذباتی دریافتوں کے لیے ماحول کی خبر ضروری تھی۔</p>
<blockquote>
<verse>
بے شمار آنکھوں کو چہرے میں لگائے ہوئے استادہ ہے تعمیر کا اک نقشِ عجیب،
اے تمدن کے نقیب!
تیری صورت ہے مہیب،
ذہنِ انسانی کا طوفان کھڑا ہے گویا؛
ڈھل کے لہروں میں کئی گیت سنائی مجھے دیتے ہیں، مگر
ان میں ایک جوش ہے بیداد کا، فریاد کا ایک عکسِ دراز،
اور الفاظ میں افسانے ہیں بے خوابی کے۔
کیا کوئی روحِ حزیں
تیرے سینے میں بھی بے تاب ہے تہذیب کے رخشندہ نگیں؟
</verse>
<p>(اونچا مکان)</p>
<verse>
رستے میں شہر کی رونق ہے، اک تانگہ ہے، دو کاریں ہیں،
بچے مکتب کو جاتے ہیں، اور تانگوں کی کیا بات کہوں ؟
کاریں تو چچھلتی بجلی ہیں تانگوں کے تیروں کو کیسے سہوں !
یہ مانا ان میںشریفوں کے گھر کی دھن دولت ہے، مایا ہے،
کچھ شوخ بھی ہیں، معصوم بھی ہیں،
لیکن رستے پر پیدل مجھ سے بد قسمت، مغموم بھی ہیں،
</verse>
<p>(کلرک کا نغمۂ محبت)</p>
</blockquote>
<p>میرا جی فرانس کے علامت پسند شاعروں کی طرح حسن کو کسی قسم کی معاشرتی یا تہذیبی یا مذہبی آلودگی میں چھپا ہوا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ وہ حسن کو محض حسن سمجھتے تھے اور جمالی پہلو ان کے سامنے تھا۔ چنانچہ انھوں نے معاشرتی و سیاسی ماحول کی جزئیات و تفصیلات کے مطالعے کو اپنے ذہن پر مسلط نہیں کیا بلکہ ان کے ہاں یہ ساری معاشرتی قدریں نا معلوم کی تلاش کا وسیلہ بن جاتی ہیں۔ نا معلوم جو اپنے اندر حسن رکھتا ہے، جس میں جمالیاتی احساس بڑا نمایاں ہوتا ہے۔ حسن عسکری اپنے افسانوں کے مجموعے جزیرے کے اختتامیہ میں لکھتے ہیں کہ ”حقیقت یہ ہے کہ حسنِ معنوی ہو یا حسنِ صوری سب روح کے سانچے میں ڈھلتا ہے۔ کسی لکھنے والے میں سب سے بڑی چیز دیکھنے کی یہ ہوتی ہے کہ وہ کتنی گہرائی سے بول رہا ہے۔“ کئی دانشوروں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا تھا کہ جو دنیا ابھی تک نا معلوم ہے انھیں وہاں جا کر انسانوں کی بستیاں بسانی ہیں۔ میرا جی فن برائے فن کے مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔ اس نظرے کے علمبرداروں کو قنوطیت، فرار اور رجعت پسندی کا نعرہ بلند کرنے والے کہا گیا ہے اور ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ یہ فن کار سیاسی و سماجی شعور سے نا بلد ہیں۔ حسن عسکری کا خیال ہے کہ اس قسم کے اعتراضات درست نہیں ہوتے۔ ان لوگوں نے اگرچہ کسی خاص جماعت کے سیاسی نظریات یا نشرواشاعت کا کام نہیں کیا۔ لیکن یہ سماجی صورتِ حال سے بے بہرہ نہیں تھے۔ فرانس میں بادلیر، ران بو اور ورلین وغیرہ نے انقلاب میں باقاعدہ حصہ لیا تھا اور اپنے عہد کی سیاسی جماعتوں، تنظیموں اور سماجی کارکنوں کی ذہنی جہتوں کا بغور جائزہ لیا تھا۔</p>
<p>میرا جی نے آزاد نظم میں روایتی عروض کے الگ بنے بنائے سانچوں سے الگ ہو کر عروضی اجتہادات کرنے کی کوشش کی۔ نظم کے ایک مصرعے کو توڑ کر مختلف مصرعے بنانے کا عمل ان کے ہاں کمیاب ہے۔ ان کے کسی بھی دو مصرعوں کو ملا کر ارکان کی ابتدائی تعداد حاصل نہیں ہو سکتی اور آزاد نظم کی باقی اصناف کے مقابلے میں یہی سب سے بڑی امتیازی خصوصیت ہے۔ میرا جی نے آزاد نظم میں زبان کے استعمال کے سلسلے میں جدید شاعری کی تحریک کی پیروی کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے علمبرداروں نے آزاد نظم کو اپنا وسیلہ اظہار قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا تھا کہ نظم میں آرائشی الفاظ اور پر شکوہ لفظیات کی بجائے عام بول چال کی زبان کو استعمال کیا جائے۔ میرا جی کی نظمیں اپنے دیگر معاصرین راشد وغیرہ سے اپنی زبان کی خصوصیات کی بنا پر بھی مختلف ہیں۔</p>
<blockquote>
<verse>
اپنے اک دوست سے ملنے کے لیے آیا ہوں،
ایک دو بار تو زنجیر ہلائی میں نے
لیکن آواز کوئی آئی نہیں؛
گھر پہ موجود نہیں؟ سویا ہوا ہے، دن میں؟
</verse>
<p>(افتاد)</p>
</blockquote>
<p>ان کی نظموں میں خیال کی پیچیدگی اور تہہ در تہہ کیفیت سے ابہام اور اہمال کے عناصر کا شبہ ہو سکتا ہے مگر زبان کے اعتبار سے وہ عام فہم، سادہ اور آسان لفظوں سے نظم کا تانا بانا بناتے ہیں۔ کہیں کہیں زبان کے اسی استعمال کی بدولت ان کے ہاں مکالمے کا اندازہ بھی ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ میرا جی اپنی نظموں میں ہندی اور بھاشا کے الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ان کی نظم میں گیت کی سی گھلاوٹ لوچ اور مانوسیت پیدا ہو جاتی ہے۔ انھوں نے پابند نظموں میں ہندی الفاظ کثرت سے استعمال کیے ہیں۔ جہاں تک ان کی آزاد نظم کا معاملہ ہے ان نظموں میں ہندی الفاظ کی بہتات نہیں ہے۔ کئی پابند نظموں میں انھوں نے خالص ہندی ماحول اور گیت کی فضا تیار کی ہے۔ میرا جی کی کئی آزاد نظموں میں ہندی اور اردو الفاظ کا توازن اور امتزاج نظر آتا ہے۔ ان کی نظموں میں فارسی الفاظ کا استعمال ثقالت پیدا نہیں کرتا بلکہ بہت حد تک اردو محاورے کی اعانت کرنے کا کام انجام دیتا ہے۔</p>
<blockquote>
<verse>
کیوں خوابِ فسوں گر کی قبا چاک نہیں ہے؟
کیوں گیسوئے پیچیدہ و رقصاں
نمناک نہیں ہے
</verse>
<p>(دھوبی کا گھاٹ)</p>
</blockquote>
<p>میرا جی کی نظموں میں قافیے کا استعمال کسی خاص تاثر یا موضوع کی پیچیدگی یا تشہیر کے مظہر کے طور پر اجاگر ہوا ہے۔ ان کے ہاں قافیہ نظم کے آہنگ کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ خیال کا بہائو اور صوت کی روانی بدستور قائم رہتی ہے۔ کسی قسم کے ذہنی جھٹکے یا کھردراہٹ کا احساس نہیں ہوتا۔ ان کے ہاں عروضی قواعد کے ذریعے قافیے کی شناخت نہیں ہے بلکہ وہ قافیے کو الفاظ کی صوتی ہم آہنگی و مماثلت کی بنا پر وجود بخشتے ہیں۔</p>
<p>میرا جی نے اپنی نظموں میں ثقیل اور پیچیدہ بحروں کی بجائے سادہ اور سیدھی بحریں استعمال کی ہیں۔ میرا جی چونکہ آزاد نظم کے ایک خاص آہنگ اور صوتی ڈھانچے پر یقین رکھتے تھے اس لیے ان کا خیال تھا کہ بحروں کی پیچیدگی اور ثقالت آزاد نظم کے لہجے کو برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتی رہتی ہے۔ یہ مثال ان کی کئی نظموں میں موجود ہے۔ ”جاتری“ میں انھوں نے خیال کے بہائو کو چھوٹی چھوٹی مصنوعی اکائیوں میں تقسیم کر کے ایک مصرعے کی صورت دے دی ہے۔</p>
<blockquote>
<verse>
ایک آیا گیا، دوسرا آئے گا، دیر سے دیکھتا ہوں، یونہی رات اس کی گذر جائے گی
میں کھڑا ہوں یہاں کس لیے، مجھ کو کیا کام ہے یاد آتا نہیں
</verse>
</blockquote>
<p>آزاد نظم میں مصرعے کا انقطاع اس وقت عمل میں آتا ہے جب یا تو کسی خیال کی تشریح و توضیح یا پھر خیال کی کسی نئی کڑی کو نظم میں لانے کی کوشش مقصود ہوتی ہے۔ میرا جی کے ہاں مصرعوں میں انقطاع خیال کے بہائو کے حوالے سے وجود میں آتا ہے۔ میرا جی کی آزاد نظموں میں اجتہاد برائے اجتہاد کا معاملہ نہیں بلکہ انھوں نے قدیم عروضی جہتوں میں تصرف کر کے اردو نظم نگاروں کو ہیئت کا نیا شعور دیا۔ راشد نے ماورا کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ”اردو میں آزاد شاعری کی تحریک محض ذہنی شعبدہ بازی نہیں، محض جدت اور قدیم راہوں سے انحراف کی کوشش نہیں کیونکہ اجتہاد کا جواز صرف یہ نہیں کہ اس سے کسی حد تک قدیم اصولوں کی تہذیب عمل میں آئے بلکہ یہ کہ آیا تعمیری ادب اس میں کسی نئی صبح کی طرح نمودار ہوتا ہے یا نہیں۔“</p>
<p>انگریزی آزاد نظم ترنم کے دو بنیادی عناصر کی حامل ہے۔ خارجی عنصر، داخلی عنصر۔ خارجی ترنم کی بنیاد ان کے تصور پر ہے جو اردو میں عروض سے مختلف ہے۔ ان کے خارجی آہنگ کی بنیاد آواز کے زیر و بم پر ہوتی ہے۔ داخلی آہنگ خیال اور جذبے کے داخلی پہلوئوں سے متعلق ہوتا ہے۔ یہ نظم کے صحیح اور مناسب ترنم کے لیے ناگزیر ہے۔ انگریزی عروض پیمانے اردو عروض سے مماثلت نہیں رکھتے اور نہ ہی اردو زبان کا مزاج اس بات کا متحمل ہے کہ وہ انگریزی عروض کو پورے طور پر قبول کر سکے۔ میرا جی کی کئی نظموں میں ترنم اور موسیقی کا خارجی عنصر انگریزی نظم کی داخلی تنظیم کے اعتبار سے خود رو آہنگ کی بدولت ہے۔</p>
<p>میرا جی کی آزاد نظمیں پرانے شعری عہد کے طلسمات اور تلمیحات اور جاگیردارانہ اخلاقیات سے آزاد ہیں۔ ان کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ یہ ثابت کرنے کا امکان رکھتا ہے کہ ان کے احساسات و جذبات اور خیالات و افکار عہد قدیم کی شعری باقیات سے آزاد ہیں اور یوں ان کی شاعری جنس، تصوف اور معاشرت کے پرانے احساسات سے نجات پا چکی ہے۔ یہ عمل طبقاتی نظام کی سیاسیات سے بھی آزاد ہو گا۔ یہ ایک عجیب کشمکش ہے لیکن اس کشمکش سے وہ سحر اور وہ آرٹ پیدا ہوں گے جس کا خواب یورپ کے رومانی شعرا نے اپنی تحریک کے عروج کے زمانے میں دیکھا تھا۔ رومانی شعرا نے سرمایہ دارانہ رشتوں کی مخالفت میں ہی شاعری کی ہے۔ انھوں نے اپنے احساسات اور ندائے تخیل سے اس بات کی تصدیق کی کہ انسان ایک ہے وہ ناقابل تقسیم ہے۔ وہ انسان ہے نہ کہ آقا اور غلام زمیندار اور کسان، کامگار اور سرمایہ دار منشی اور کوتوال اس میں شبہ نہیں کہ انھوں نے اس بغاوت کو بہ قوت جذبہ پروان چڑھایا اور عقل کی مخالفت کی۔ لیکن جو چیز سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انھوں نے سرمایہ دارانہ طبقے کی عقل کے خلاف بغاوت کی۔ نہ کہ انسانی عقل کے خلاف۔ ورنہ ورڈز ورتھ اپنے تخیل کو عقل مرتفع کا نام کیوں دیتا۔ انھوں نے اس عقل کے خلاف بغاوت کی جو اسیر سود و زیاں تھی۔ جو انفرادی تگ و دو کی بہیمانہ قدر کو عام کیے ہوئے تھی اور جو احساسات و جذبات کی اطلاعات سے اس لیے کنارہ کش تھی کہ ان کا فیصلہ تاجر کے استحصال کے خلاف تھا۔</p>
<p>نئے شاعر کی نظمیں اسلوب، تمثال نگاری اور لسانی پیراے کے اعتبار سے گذشتہ عہد کے شعرا سے مختلف ہیں۔ یہ شاعر اپنے مافیہ کے اظہار کے لیے رنگا رنگ اور متنوع طریق اظہار استعمال میں لائے ہیں۔ اگرچہ سب نئے شاعر منفرد پیرایۂ اظہار کے حامل ہیں اور اپنے اپنے اسالیب کے اعتبار سے اپنے معاصرین سے الگ ہیں۔ تاہم نئی آگہی، نیا شعور اور نئے احساساتی اور جذباتی تصورات ان میں مشترک ہیں۔ افتخار جالب نئی شاعری کے بانیوں میں سے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ہم بے جان کائنات کو بدلتے ہیں۔ خود بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور بدلی ہوئی بدلتی کائنات سے نباہ کرتے ہیں۔۱۲ میرا جی کی نظمیں، میرا جی کے گیت، گیت ہی گیت، پابند نظمیں، تین رنگ میں موجود شعری تخلیقات عصر حاضر میں موجود بیگانگی کے وسیع و عریض صحرا میں انسانی تنہائی، خوف، انتشار اور بے دلی کے کوائف کا بھرپور احاطہ کرتی ہیں۔ میرا جی نے جس ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں وہ کمزور ممالک پر براہ راست سامراجی قبضوں کا دور تھا۔ میرا جی کی شاعری ترقی پسند شعرا کی شاعری کی مانند براہ راست سیاسی شعور کی شاعری تو نہیں تھی البتہ ان میں موجود علامتی یا استعاراتی حسیت کئی سطحوں پر ان کے سیاسی شعور کا اظہار کرتی ہے۔ یہ رویے صنعتی تہذیب کی مادی خوشحالی اور روحانی دیوالیہ پن کا عطیہ ہیں۔ یہ اخلاقی دیوالیہ پن طلاموس کبیر( کہ جو شیطان کبیر بھی ہے) کی عطا ہے۔ اس کے بارے میں راشد صاحب کا کہنا ہے:</p>
<blockquote>
<verse>
اے طلاموس کبیر
ایک نا فہمی کے پتھر پر یہ کیوں خوابیدہ ہیں
ایک پیرہ زال سے چسپیدہ ہیں
دیکھنے والوں میں کیوں اتنے ادا ناآشنا؟
اس فسون و خواب کی تصویر آرائی کریں
جو پیر ہے پارینہ ہے؟
یا سبک پا روز و شب کے عشق سے
سینوں کو تابندہ کریں؟
اے اداکارو نہیں
جیسے ہی پھر پردہ گرا
گونج بن کر ان کے ذہنوں میں دمک اٹھے گا کھیل
(ان کی نظریں دیکھیے)
ان کو بچوں کی محبت، گھر کی راحت
اور زمیں کا عشق سب یاد آئے گا
ان کے صحرا جسم و جاں میں
فہم کی شبنم سے پھر اٹھے گا
جس دریا کا شور
خود اداکاروں سے یہ بھی کم نہیں
یہ اداکاروں کی آوازوں پہ کچھ جھولے سہی
لفظوں کو بھی تولا کیے، قدموں کو بھی گنتے رہے
۔۔۔۔ ان کے چہرے زرد رخسارے اداس۔۔۔۔
درد کی تہذیب کے پیرو
ہزاروں سال کی مبہم پرستش
یہ مگر کیا پا سکے؟
آہ کے پیاسے کبھی اشکوں کے مستانے رہے
اپنے بے بس عشق کو عشقِ رسا جانے رہے
ہر نئی تمثیل کے معنی سے بیگانے رہے
جب اداکاروں کی رخصت کی گھڑی آئی
تو جاگیںگے تو یاد آئے گا ہم میں
اور اداکاروں میں نا فہمی کے تار۔۔۔۔
اور کوئی فاصلہ حائل نہ تھا
اے طلاموس کبیر
تیرا پیغمبر ہوں میں
تو نے بخشا ہے مجھے کچھ فیصلوں کا اختیار
ان اداکاروں سے ان کے دیکھنے والوں
کا عقدِ نو۔۔۔۔ یہ میرا فیصلہ
تم میاں ہو اور تم بیوی ہو
تم ملک ہو تم ہو شہر یار
تم بندر ہو تم بندریا
ہم کہ سب تیرے پرستاروں میں ہیں
اے طلاموس کبیر
</verse>
<p>(نئی تمثیل)</p>
</blockquote>
<p>میرا جی نے اس طلاموس کبیر یعنی سرمایے کے مختار کل کے اثرات کو اپنے دور کے انسانوں کے باطن میں جاگزیں پا کر ان کے خلاف بھر پور صداہائے احتجاج بلندکیں۔ اور اس کے پرستاروں کو بیچ چوراہے ننگا کیا۔ سرمایہ داری نے جس ”طلاموس کبیر“ کی شکل ابھاری ہے اسے دنیا بھر کے لوگ اپنا دستگیر سمجھ بیٹھے ہیں۔ یہ نئی طاقت ساکن اور محدود تصورات میں گم رہتی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ تمام دنیا خام مال کی صورت اس کی بے پایاں مٹھی میںبند رہے۔ وہ لوگ کہ جو اس دور میں راہ گم کر چکے ہیں ناشکیبوں کی طرح کسی بے پایاں کی تلاش کرنا چاہتے ہیں مگر جب وہ اس نئی طاقت کو اپنا ملجا و ماویٰ قرار دے دیتے ہیں تو وہ انھیںجس سمت قدم بڑھانے کو کہتا ہے وہ انہیںسنگ میل ہست کی جانب لے جا سکتی ہے یا ”ماجرا“ کے سامنے آنکھیں بچھانے پر آمادہ کر سکتی ہے۔ سرمایے کی نئی تمثیل کی داستان کھیل کھلنے کے ساتھ کھلتی ہے۔ ان لوگوں کے اشارے، حرف، آوازیں، ادائیں نئی صورتوں میںڈھلتی جاتی ہیں۔ اس تمثیل کے اداکاروں کا باطن داستاں در داستاں آگے بڑھتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کے متحرک قدم بھی نظر آتے ہیں اور ان کے سائے بھی۔ تماشائی اس تمثیل میں اس قدر منہمک ہیں کہ وہ پکار رہے ہیں ”چپ رہو“۔ یہ داستان پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے ”چپ رہو ہم کچھ سمجھ سکتے نہیں، مبتذل آوارہ بس مت کچھ کہو، شرمناک اب کچھ نہ گائو، دیکھنے والوں کا ہنگامہ کہ بام و فرش ایک!“ سرمایے کی نئی طاقت ایک نئے ڈرامے کا پردہ اٹھا چکی ہے۔ اس میں مادیت کی جانب اٹھنے والا ہر قدم انسانوں کو روحانی طور پر دیوالیہ کر رہا ہے۔ اس میں کردار خود بخود داستان کو ارتقا کی جانب لیے چلے جا رہے ہیں۔ طلاموس کبیر کا یہ کھیل سرگرمی سے جاری ہے۔ اس کھیل میں میرا جی کے حصے میں لاحاصلی آئی ہے۔ انسانوں کو خام مال کی طرح استعمال کرتے نظام میں نچلے طبقے کے انسانوں کے حصے میں بس یہی کچھ ہی آ سکتا تھا۔ اپنے خالص جوہر تخلیق کی بربادی! میرا جی نے تو اس کے عملی مظاہرے سے بھی گریز نہیں کیا!</p>
<p>میرا جی مشرق و مغرب کے نغمیمیںکہتے ہیں:</p>
<blockquote>
<p>فن کار کی ذہنی کیفیت کے اظہار میں ابہام نہ صرف ایک قدرتی بات ہے بلکہ حقیقت پرستی کا تقاضا ہے کہ اسے جوں کا توں بیان کیا جائے جہاں آپ نے کسی ہلکے سے اشارے یا گونج کو واضح کرنے کی کوشش کی، وہ ہلکا اشارہ یا گونج نہ رہے۔۔۔ فن کار جس بات کو وضاحت کے ساتھ نہیں بلکہ اشارے کنایے سے بیان کرتا ہے وہی بات اس کی تخلیق میں ایک عمق پیدا کرتی ہے۔</p>
</blockquote>
<p>زمانہ ہوا، افتخار جالب نے ایک نظم ”یَدُاللہ فوق اید یہم“ حلقہ ارباب ذوق کے یوم میرا جی کی مناسبت سے پڑھی تھی</p>
<blockquote>
<verse>
”میرا جی تجھے کیسے یاد کریں؟“
تجھے چوروں نے گھیر لیا
تیرا سب کچھ لوٹ لیا
نیت اپنی بھی کچھ ٹھیک نہیں
تجھے کیسے یاد کروں
وہ جو، خوابوں کے اندر، خواب ہے تجھے کیسا لگا تھا؟
کیسے کہوں، مجھے کچھ بھی خبر نہیں
ہاں اتنا ضرور ہے،
تُو نے خواب یقیناٌ دیکھا تھا
وہ جو ہاتھوں سے چھن چھن جاتا تھا،
وہی خواب، مِرے ہاتھوں میں ہاتھ دیے، مِرے ساتھ چلے
وہ جو ہاتھ ہے محنتی، برکتوں والا، جسے وقت کا ظلم اُجاڑتا ہے
مِرے ہاتھ میں ہے، مِرے ساتھ بھی ہے
تِرے پاس تو خواب ہی تھا،
مِرے ہاتھ میں ہاتھ نہ تھا
تِرے ساتھ خدائی کا ہاتھ نہ تھا
مِرے خواب کا ہاتھ کدھر گیا؟
مِرے خواب کا ہاتھ جہان میں ہے
یہ جہاں جہان کا راہ نُما
یہ جہاں جہان کے محنتی ہاتھوں کا راہ نُما
مِرے پاس تو ہے، ترے ساتھ نہ تھا
جوں ہی صبر کو ٹوٹ بکھرنا ہو
جوں ہی ظلم کو حد سے گزرنا ہو
تِرے دکھ کو یاد کروں!
تجھے ایسے، ہاں، تجھے ایسے یاد کروں!!
میرا جی تجھے کیسے یاد کروں!
</verse>
</blockquote>
</section>
</body>
</document>