-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 7
/
0020.xml
63 lines (63 loc) · 62.9 KB
/
0020.xml
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
<document>
<meta>
<title>فطرت، جمالیاتی ادراک، صوفیہ اور خانقاہیں: بنگال کے اسلامی کتبات کی روحانی جہت</title>
<author>
<name>محمد یوسف صدیق</name>
<gender>Male</gender>
</author>
<publication>
<name>Bunyad, Volume 4</name>
<year>2013</year>
<city>Lahore</city>
<link>https://gcll.lums.edu.pk/sites/default/files/2_m_yousaf_sadique_bunyad_2013.pdf</link>
<copyright-holder>Gurmani Centre for Languages and Literature, Lahore University of Management Sciences</copyright-holder>
</publication>
<num-words>7023</num-words>
<contains-non-urdu-languages>Yes</contains-non-urdu-languages>
</meta>
<body>
<section>
<p>کتبہ: حضرت پنڈوہ میں نور قطب العالم کی خانقاہ میں ان کا تدفینی کتبہ بتاریخ ۸۶۳ھ؍۱۴۵۹ئ (جس میں شیخ کے لیے سات روحانی القاب استعمال کیے گئے ہیں)</p>
<list>
<li><annotation lang="ar">قال اللہ تعالی کل نفس ذائقۃ الموت وقال اللہ تعالی ]فـ[ ـإذا جا]ئ [أجلہم لا یستأخرون ساعۃ ولا یستقدمون قال اللہ تعالی کل من علیہا فان ویبقی وجہ ربک ذو الجلال والإکرام وانتقل</annotation></li>
<li>اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا پڑے گا’۔ اللہ تعالیٰ نے مزید فرمایا ’جب وہ گھڑی آپہنچتی ہے تو نہ ایک لمحے کی تاخیر ہو سکتی ہے نہ تقدیم‘۔ اللہ عزوجل نے فرمایا ’جو کچھ روئے زمین پر ہے فنا ہو جائے گا اور باقی صرف تیرے ربِ ذوالجلال والاکرام کی ذات رہے گی۔‘</li>
<li><annotation lang="ar">مخدومنا العلامۃ استاد <أستاذ> الأیمۃ برہان الأمۃ شمس الملۃ حجۃ الإسلام والمسلمین نافع الفقرائ والمساکین مرشد الواصلین والمسترشدین من دار الفنائ إلی دار البقائ الثامن والعشرین من ذی الحجۃ فی یوم الإثنین</annotation></li>
<li>ہمارا آقا...عظیم عالم، اماموں کا استاد، امت کا ہادی، قوم کا سورج، اسلام اور مسلمانوں کی حجت، فقرائ اور مساکین کو نفع پہنچانے والا، سیدھے راستے کے متلاشیوں اور متوصلین کو راہ دکھانے والا... دارِ فنائ سے دارِ بقائ کی طرف کوچ کر گیا ہے، مؤرخہ ذوالحجہ کی اٹھائیس بروز پیر</li>
<li><annotation lang="ar">وکان ذلک من السنۃ الثالث ٴ>الثالثۃ< والستین وثمانمایۃ فی عہد }الـ {سلطان السلاطین حامی بلاد أہل الإسلام والمسلمین ناصر الدنیا والدین أبو >أبی< المظفر محمود شاہ سلطان صانہ اللہ بالأمن والأمان وبنی ہذا >ہذہ< الروضۃ خانا لاعظم لطیفخان سلمہ من البلیات والآفات</annotation></li>
<li>اور یہ سنہ آٹھ سو تریسٹھ (۲۵ اکتوبر، ۱۴۵۹ئ )میں ہوا، بعھد سلطان السلاطین حامی بلاد اہل الاسلام والمسلمین (اسلام اور مسلمانوں کی زمینوں کے محافظ)، ناصر الدنیا والدین أبوالمظفر محمود شاہ السلطان۔ اللہ سلامتی اور حفاظت سے اس کی پشت پناہی کرے۔ عظیم خان لطیف خان نے اس مقبرے کو تعمیر کیا؛ اللہ اس کو آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔</li>
</list>
<p>اس کتباتی عبارت میں موجود گہرے طور پر روحانی رنگ میں رنگے ہوئے غیر معمولی دینی القاب اس عمیق وابستگی اور احترام کے مظہر ہیں جس کا اظہار بنگال کے چند انتہائی محترم صوفی بزرگوں میں سے ایک، نور قطب العالم، کے لیے بنگال کی دیہی آبادی کے جمِ غفیر نے ہمیشہ کیا۔ اس کا سادہ و فطری اور متوازن فنی اسلوب خاصا جاذبِ نظر ہے۔ سادہ پس منظر کے اوپر خطاطی کو خطِ بِہاری میں پیش کیا گیا ہے، جو کسی بھی غیر معمولی آرائش یا مصنوعی سجاوٹ سے خالی ہے۔ متناسب ترتیب سے صف آرا مخروطی عمودی ڈنڈے نچلے حصے میں باریک لکیر سے شروع ہو کر اوپر جاتے ہوئے موٹائی پکڑتے ہیں۔ عمودی ڈنڈوں کی اوپر کی جانب غیر معمولی طوالت اور ایک صف میں ان کی تنظیم کو بچھڑجانے والی روحوں کے اوپر کی جانب سفر یا جنازہ کی دعا میں شامل حاضرین اور ساتھ ساتھ مرحوم شخص کی روح کے لیے رحمت لے کر اترنے والے فرشتوں کے علامتی اظہار کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ تہہ میں موجود جمگھٹا نما حروف کو بھی اجتماع کی علامت شمار کیا جا سکتا ہے جو نمازِ جنازہ کے لیے صف بند سوگوار مصلیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہوں۔ پہلی سطر کے اوپری حصے کے وسط میں ہشت پہلو پھول آٹھ جنتوں کی علامت ہے جو اس ترتیب میں ایک مناسب آرائشی عنصر ہے۔ اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ مرحوم کی نمازِ جنازہ کی تنظیم میں مخصوص جگہ سے میل کھاتا ہے، خاص طور پر جب جسم کو جنازے کے اجتماع کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ مسلم بنگال کی فنِ تعمیرکی خطاطی میں ہمیں چند مثالیں ملتی ہیں جہاں ”تحریر“ اور ”کتابت“ نے آغاز سے ہی ایک فن ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی مظہر کا کردار بھی ادا کیا ہے اور جس کے جمالیاتی پہلو میں فطرت کے عناصرکوبھی سمو دیا گیا ہے۔</p>
<p>فطرت سے گہرے اتصال اور انسانی نجات کی روحانی تلاش میں گندھا ہوا سادہ زندگی کا صوفی پیغام بنگال کے وسیع دیہاتی علاقوں میں دیہی اندازِ زندگی کے ساتھ شروع سے ہی بہت اچھی طرح ہم آہنگ ہو گیا تھا۔ حضرت محمدﷺ کی زبانی دین الفطرۃ سے موسوم اسلام علاقے میں فطرت اور روحانیت کے درمیان ایک مضبوط تعلق بناتے ہوئے پھیلا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے تمام ماحول - کائنات - اپنے ایک الگ انداز میں جاندار ہے، جس کا ایک ایک جز اپنے خالق کی عبادت میں مصروف ہے۔ خالق اور مخلوق میں ایک گہرا تعلق پایا جاتا ہے، جس کو درجۂ کمال صرف اس وقت حاصل ہوتا ہے جب مناسب ہم آہنگی سے ان کو پروان چڑھایا جائے۔ خالق اپنی مخلوق کے ذریعے ہر جگہ جلوہ گر ہے جسے صوفیہ کے یہاں ”وحدت الشہود“ کا نام دیا جاتا ہے اور یہ نظریہ بنگال کے صوفی ادب میں خاص طور پر پایا جاتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ ایک مومن کو خدا کی موجودگی کی شہادت کائنات میں ہر جگہ نظر آتی ہے۔ ایک مومن کے لیے زمان و مکان کا ہر عنصر اللہ کی عظمت کی یاددہانی کرواتا ہے جو اس کے اندر حیرت کی انتہا اور دل کی گہرائیوں میں ایمانی جوش ابھارتا ہے، جو مومن کو روحانی تجربے کی چوٹی اور خالق کے ساتھ اتصال تک لے جاتا ہے۔ اس مرحلے پر مومن حیرت و استعجاب کی شدت سے بے ساختہ سبحان اللہ کہتے ہوئے خدا کی عظمت کی صدا بلند کرتا ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو بنگال کے کتبات میں مذکور قرآنی آیات اور نبیﷺ کے اقوال میں کثرت سے ملتا ہے۔</p>
<p>مسلم دنیا کے دوسرے خطوں کی طرح بنگال میں بھی بنیادی صوفی پیغام کا مرکزی نقطہ اللہ کی وحدت ہے جو(قرآن میں) المحیط (سب پر چھایا ہوا) کے گہرے مفہوم کے مطابق حتمی کائنات (وجود)ہے۔ وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے اور ہر جگہ موجود(قرآن میں ”الموجود“ بمعنی ہمیشہ سے موجود، ایک صفتِ الہٰی)ہے۔ وجود (الوجود) کی حقیقتِ منتہی (الحق۳، ایک اور صفتِ خداوندی) خدائی وحدت یا توحید - اسلام کے بنیادی پیغام - کی روح میں پنہاں ہے، جس کی بہترین توضیح صوفی نظریہ وحدۃ الوجود (موجودات کی وحدت) سے ہوتی ہے۔ گویا صوفی تعلیمات میںوجود کے گوناگوں اظہار میں وحدت پنہاں ہے اور الدین(مذہب)دراصل اپنے اصلی روپ میں ازلی وحدت کی طرف لوٹنا ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جس کا علامتی اظہار نور قطب العالم کے تدفینی کتبے میں ایک منفرد اور دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔</p>
<p>قرآن میں فطرت کا کائنات میں دلچسپ کردار اور اس میں پنہاں روحانی پیغام کی طرف اشارہ جابجا موجود ہے، اگرچہ اس کو اپنی حیثیت میں بطور موضوعِ خاص شاذ و نادر ہی کھوجا گیا ہے۔ قرآنی نقطۂ نظر کے مطابق کائنات کے تمام اجزائ فطری قوانین کی پیروی کرتے ہیں جو خدائی اور بایں صورت اسلامی ہیں۔ قرآن کے مطابق ہر موجود چیز اللہ کی عظمت بیان کرتی ہے۔ (۱۷:۴۴) فطرت کی جانب اشارہ کرنے والی قرآنی آیات بنگال میں کئی کتبات میں ملتی ہیں۔ پرہیز گاری کے کام اور عبادت انسانوں کو فطرت کے قریب آنے میں مدد دیتے ہیں اور لطیف ماحولیاتی توازن اور ان کے ساتھ ان کے قریبی تعلق کی انسانی سوچ کی ایجابی پرورش کرتے ہیں۔</p>
<p>اسلامی تصوف کے نظریہ میں زمین کا ایک مقدس پہلو نمایاں طور پر موجود نظر آتا ہے۔ نبیﷺ نے پوری زمین کو مقدس اور مسجد جیسا پاکیزہ اور صاف قرار دیا۔ چناںچہ پوری کائنات کی بے مثل تخلیق ایک جائے عبادت کے طور پر کی گئی ہے۔ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں - جنگل میں، پہاڑ پر، صحرا میں یا سمندر پر - اپنے مذہبی فریضہ کے لحاظ سے صلوٰۃ (نماز) کی شکل میں کم از کم روزانہ پانچ مرتبہ اپنے خالق کو یاد کرنے کے پابند ہیں۔ اسلام میں مساجد ہمیشہ زندگی کے مختلف گوشوں میں ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ اور اس لیے شاید مساجد کو صرف عبادت یا نماز ہی کی جگہ قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی صحیح معنوں میں مساجد فقط باجماعت عبادت کا مرکز بنی رہیں، بلکہ ثقافتی ارتقائ اور سماجی نشو نما میں مساجد نے ہمیشہ ایک گہرا اثر چھوڑا۔ اسلام کی یہ سادہ تعبیر بنگالی دیہی کاشتکاری آبادی کو راس آئی جس نے ان کے مذہبی اعمال کو آسان تر اور فطری بنا دیا۔ دیگر جگہوں کی طرح بنگال میں بھی صوفیہ نے اسلامی معاشروں میں شریعہ اور اسلامی طرزِ حیات کی ضرورت پر زور دیا۔ اور ہو بھی کیوں نہ جبکہ ان کے نزدیک یہ نظام اس دنیا میں ایک فطری طرزِ حیات اور صحت مند ماحول میں فرد اور اجتماع کے لیے شادمانی کا ضامن تھا۔ آخرکار یہ نظام آخرت میں لافانی خوشی کے انتہائی درجہ کی راحت، پودوں، پھولوں، دریاؤں، پانی اور زندگی سے بھرپور جنۃ (لغوی معنی باغ) کے طور پر روحانی انعام کا ضامن بھی تھا۔</p>
<p>حق(سچائی) کے ساتھ تعلق کی بنا پر اسلامی صوفی تعلیمات میں خوبصورتی کو ایک پسندیدہ خوبی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ”خوبصورتی حق(سچائی) ہے اور حق (سچائی) خوبصورتی ہیـ“ کا نظریہ اسلامی روایت میں ایک اہم جگہ پاتا ہے۔ خدائی حسن کو سمجھنے کی خاطر فطرت کی درخشانی کا ادراک مومن کی صفاتِ لازمہ میں شمار کیا جاتا ہے۔ نبیﷺ کا یہ فرمان کہ ”اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے“ اُس اہمیت کو اجاگر کرتا ہے، اور اس طرح حسِ جمالیات اسلام کے ساتھ گہری طرح منسوب ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ حسن کا مخرج درحقیقت اللہ ہی کے وجود میں ہے جو اس قدر شاندار ہے کہ ایک بے حجاب انسانی آنکھ اس کی تاب نہیں لا سکتی۔ جب یہ خدائی مخلوق میں سادہ انداز میں جلوہ گر ہوتی ہے پھر کہیں جا کے یہ خوبصورتی گہری روحانی بصیرت رکھنے والے انسانوں کے مشاہدے میں آسکتی ہے۔ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اس خدائی حسن کو کائنات میں تلاش کرنا مذہبی زہدا جزوِ لازم ہے، جو بالآخر ایک مومن کو فطرت سے ایک گہرا تعلق استوار کرنے کی راہ پر گامزن کر دیتا ہے۔</p>
<p>اسلامی روحانی پیام کو بنگال کے اسلامی فن میں عمدگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو فطرت میں بکھری خدائی تخلیق میں لامتناہی حسن سے ترغیب پاتا ہے۔ ہم آہنگ، متقابل خاکوں اور کونیاتی نظام میں اجزاے فطرت کی بے نظیر تخلیق کے طریقہ کار کا تخیل ایک مومن کے فرائض میں سے ہے۔ وجود کی درخشانی و تابناکی میں عدم دلچسپی کو ذہنی اندھے پن سے مماثلت دی گئی ہے(قرآن،۲۲:۴۶)۔ قرآن کے مطابق ہر انسان کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ کونیاتی نظم کے بے مثل مظہر پر غور کرے (قرآن، ۱۳:۱۹۰)۔ اسلامی ثقافت میں ایک فنکار کا ادراک خدائی تحفہ شمار کیا جاتا ہے۔ یہ اس کو قدرت کے مظاہر کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے اور اس کے حسن کو مزید جامعیت سے دیکھنے کے قابل بناتا ہے۔ اپنی فنکارانہ کاوشوں کے سفر کے دوران میں وہ حق کے ادراک کو وسعت دیتا ہے اور اس طرح جلد ہی اپنی تخلیقی اور تخیلاتی قوتوں کی محدودیت کو محسوس کر لیتا ہے۔ آخر کار اس تمام عمل کے دوران میں وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ہر شکل کا منبع اللہ کی تخلیق میں پنہاں ہے، ہر تخلیق اپنی اصل شکل میں خالص حسن کا جوہر رکھتی ہے (قرآن،۳۲:۷) جو نقل کے دوران اپنی اصلی ساخت کھو دیتی ہے۔ جیسے جیسے فنکار کا ادراک نمو پاتا ہے وہ محسوس کرتا ہے کہ ہر رنگ، آرائش، شکل اور خاکے کے حقیقی مخارج صرف اور صرف خدائی تخلیق میں ہی موجود ہیں۔ چناںچہ خواہ ایک فنکار اپنے فن میں مہارت کی جس سطح پر بھی پہنچ جائے وہ کسی نئی چیزکی تخلیق صحیح معنوں میں نہیں کر پاتا۔ پس ایک حقیقی فن کا نمونہ ایک مومن کے لیے کونیاتی سچائی کے قریب آنے میں مددگار ہوتا ہے، اور اس طرح آخر کار اپنی فنی کاوشوں کے دوران وہ اپنے خالق کا مشاہدہ و ادراک گہرائی سے کرتا ہے۔</p>
<p>ایک مسلمان کو اپنے فنکارانہ کام میںخاصی آزادی سے مستفید ہوتے ہوئے بھی اس کی اسلامی معروضیت یہ بتاتی ہے کہ اس کے اندرابداعی صلاحیتوں کے ودیعت کیے جانے کا ایک مثبت اور مفید مقصد ہے تاکہ یہ انسانیت کے لیے مثبت خدمت سرانجام دے۔ اسلامی فن کو مثالی طور پر سچائی، عظیم ترین خوبصورتی اور سچی انسانی اقدار کو ظاہر کرنا چاہیے۔ ایک طرح سے اس سے مراد ہر اس چیز کی نفی ہے جو مثبت تخلیقی صلاحیت کی طرف نہ لے کر جاتی ہو۔ بایں طور اسلامی زندگی کو دنیوی اور دینی کے دو الگ خانوں میں بانٹا نہیں جا سکتا۔ چونکہ ایک مسلمان فنکار اپنے تخلیقی کارناموں کے ذریعے اپنے اسلامی اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس کا فنی نمونہ خود کو ایک بڑے مقصد کے لیے وقف کر دینے کے عمل میں بدل جاتا ہے۔ اپنی فنی تخلیقی صلاحیت کے تعاقب میں ایک مسلمان فطری قانون (دین الفطرۃ) کی حدود کوکبھی بھی پھلانگ نہیں سکتا۔ مزید برآں وہ فطرت کی خدائی ترتیب و تنظیم میں قدرتی وسائل کابے جا یا ناجائزاستعمال نہیں کر سکتا اور نہ اسے قدرتی توازن کو نقصان پہنچانے یا کسی قسم کا فساد پھیلانے کی اجازت ہے۔</p>
<p>ان تمام روحانی پیغامات سے بھرپوردین اسلام آخر کار تیرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں بنگال کے دریائی ڈیلٹائی علاقے، چاول کی ثقافت کی گزرگاہ، تک جا پہنچا۔ یہ وہ وقت تھا جب بنگال ابھی تک اپنی سرسبز وزرخیز زمین کے ایک بڑے حصے پر قدرتی جنگلات سے گھرا ہوا علاقہ تھا۔ اگرچہ آریائی نسل اور ویدی ثقافت نے اپنی جڑیں پندرہ سو سال قبل مضبوط کرنی شروع کر دی تھیں، مگر بنگال کی آبادی کی اکثریت تاحال غیر آریائی (آریائی مفتوحین کے بقول ملیچھ یا ناپاک وحشی کہلائی جانے والی) اور خانہ بدوش تھی اور مقامی لوگوں کے زیادہ تر حصے نے ابھی تک ایک مستقل دیہی زندگی نہیں اپنائی تھی۔ ویدی مذہبی روایت اور مقامی فطرت و مظاہر پرستی کی رسوم کے علاوہ اسلام سے پہلے اس علاقے میں بدھ مت بھی پھیلااور گاہے بگاہے کچھ ہندو حکمران سلطنتوں بالخصوص سین حکمرانوں کی جانب سے مخالفت کے باوجود لمبے عرصے تک قرار پذیر رہا۔</p>
<p>اس خطے میں اسلام کا زیادہ تر استحکام اس وجہ سے ممکن تھا کہ اسلامی پیغام کو ایک عوامی زبان میں پیش کیا گیا، جس میں بعض اوقات مقامی مذہبی استعارات بھی استعمال ہوتے رہے۔ لیکن ضرور بالضروریہ اسلامی پیغام“ اجتماع ضدین“ سے اجتناب کرتے ہوئے پہنچایا گیا۔ ویدی مذہب کے برعکس اسلام نے خود کو بنگال میں ایک بیرونی آلہ کار کے طور پر مسلط نہیں کیا۔ علاقے میں بدھ مت کے سابقہ پھیلاؤ سے خاصی مماثلت رکھتے ہوئے اسلام نے بنگالی نفسیات کی گہرائی اور سماجی زندگی میں ایک باسہولت، بتدریج تحولاتی انداز میں بغیر کسی معاشرتی بدامنی یا یورش برپا کیے اپنا راستہ ہموار کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مقامی آبادی میں سے اکثر ابھی تک خانہ بدوش تھے، جبکہ بقیہ مستقل دیہی زندگی کو اپنانے کے مراحل میں تھے۔ اسلامی طرزِ حیات فطرتی اندازِزندگی کے ساتھ بخوبی ہم آہنگ ہو گیا۔ ”دین الفطرۃ“ ہونے کے باوصف اس نے مقامی لوگوں کے دلوں کو متاثر کیا، جن کا روایتی طرزِ زندگی صدیوں سے فطرت کے بہت قریب رہا تھا۔ گویا بنگال میں اسلام کی اشاعت انقلابی ہونے کی بجائے بہت حد تک ارتقائی تھی۔ جیسے جیسے ڈیلٹا میں دیہی آبادی میں توسیع ہوتی گئی، اسلام بنگال کی دیہی اندازِ زندگی میں آہستگی اور تدریج کے ساتھ ڈھلتا گیا۔ چند ابتدائی سلاطینی کتبات (مثال کے طور پر دیکھیے: بحال شدہ الیاس شاہی حکمران محمود شاہ کے عہد میں نبہ گرام کا مدرسہ ومسجدکاکتبہ بتاریخ۸۵۸ھ ؍ ۱۴۵۴ئ؛ کتبہ نمبر ۴۲) بھی بنگالی گاؤں (الخطۃ الریفیۃ) میں بااثر انتظامیہ کی مدد اور علما کی کوشش سے شریعہ (شعائر الشرع) یا اسلامی طرزِ زندگی کے استحکام کی طرف واضح اشارہ کرتے ہیں۔</p>
<p>ہمیشہ سے نمو پذیر قابلِ دید بنگالی گاؤں میں اسلام آہستہ آہستہ ایک عوامی مذہب بن گیا۔ جیسے جیسے انسانی آبادکاری ڈیلٹا کے ساتھ ساتھ پھیلی اور اس علاقے کے زیریں دلدلی زمین کے جنگل صاف کر کے چاول کی کاشت میں توسیع ہوئی، توں توں اسلام بھی پھلتا پھولتا گیا۔ بنگال کے شاندار ماحولیاتی توازن اور فطرتی ہم آہنگی نے اس کے مشہور ادب، لوک کہانیوں، فن، تعمیرات اور ثقافت پر گہری چھاپ رکھی۔ بنگال نے چند خود مختار اسلامی سلاطین کے دورِ حکومت میں بہت خوشحالی دیکھی جن کے دور میں رفاہی کاموں (جیسا کہ: عوامی سڑکوں، سقایۃ یا آبی حوض اور کنوؤں) نے اسلام کی اس خطے کے انتہائی جوانب تک توسیع میں مدد کی۔ بنگال کے کئی اسلامی کتبوں(مثلاً مغل شہنشاہ اکبر کے زمانے کے چند کتبات)میں ہمیں وقف اور مددِ معاش (معاشی اخراجات کے لیے خصوصی مراعات؍اوقاف)کے اداروں کی طرف اشارہ ملتا ہے جس نے بلا تفریقِ مذہب تمام لوگوں کی مدد کی۔ بعد میں آنے والے مغلیہ دور(سترھویں اور اٹھارویں صدی) میں بنگال نے اپنے ماحولیاتی توازن کو کھوئے بغیر قدرتی وسائل کے مثبت استعمال میں مسلسل اضافہ دیکھااور بنگال اس سلطنت کے لیے اناج کا نہ ختم ہونے والا وسیلہ شمار ہونے لگا۔ سلاطینی کتبات میں کثرت سے ملنے والے بنگالی خطِ طغرائ کے خصائصِ خطاطی بہت خوبصورتی سے بنگال میں دیہی طرزِ زندگی اور اسلام کی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان انتہائی دلکش کتبات کی خطاطی میں لمبے لمبے عمودی خطوط کی باقاعدہ تکرار نمایاں طور پر نظر آتی ہے جو علامتی طور پر کاشت کے لیے استعمال ہونے والے ہل یا پھاؤڑا یا پھر شاید دلدلی زمین کے بانس نما درخت (اور سرکنڈوں) اور ساتھ ساتھ بنگال کے جنگلاتی منظر کو ایک تجریدی فن میں پیش کرتی ہے۔</p>
<p>بالآخر اٹھارویں صدی میں اسلام بنگال کا مقبول ترین عقیدہ و عوامی مذہب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک غالب ثقافت کے طور پر ابھرا۔ اگرچہ اس علاقے میں اسلام کے پھیلاؤ میں کارفرما عوامل کے بارے میں کئی قیاس آرائیاں کی گئی ہیں، تاہم یہ کہنا مبنی بر مبالغہ نہیں کہ اسلام علاقے میں ایسے مذہب کے طور پر داخل ہوا جو فطرت کے قریب (دین الفطرۃ)تھا۔ پس اس نے دیہاتی بنگالیوں کو اپنی طرف مائل کیا جن کا روایتی طرزِ زندگی صدیوں سے نہایت ہی سادہ اور ماحول سے ہم آہنگ رہا تھا۔ سلاطینی اور مغلیہ ادوار میںبنگال کے شاندارماحولیاتی توازن اور فطرتی ہم آہنگی نے یہاں کے اسلامی ادب، فن، تعمیرات، ثقافت اور لوک ادب پر گہری چھاپ ڈالی۔</p>
<p>بنگال میں مسلم حکمرانی کے ایک سو سال میں اب تک تقریباً تیرہ عربی اور فارسی کتبات دریافت ہو چکے ہیں جن کی تاریخ ۱۲۰۵ئ اور ۱۳۰۴ئ کے درمیان کی ہے۔ ان میں سے چھے، ایک اہم مذہبی ادارے یعنی خانقاہ کی تعمیر کی یادگار پر مبنی ہیں جس نے زمانوں تک بنگال کے معاشرے اور زندگی میں اسلامی روحانی اقدار پھیلانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ خانقاہوں نے مدرسہ کے ادارے کے ساتھ مساوی انداز میں علمی درسگاہ کا کردار ادا کیا۔ اسلامی دنیا کے ازمنۂ وسطیٰ میں خانقاہوں کے تعلیم اوردانش و فکر پھیلانے کے کردار کو اس قدر اہم سمجھا جاتا تھا کہ مشہور مؤرخ اور فلسفیِ زمان ابن خلدون (م۔۱۴۰۶ئ )کو مصر کے مملوک حاکم نے قاہرہ میں بیبرس کی خانقاہ کا سربراہ مقرر کیا جو اُس وقت اسلامی دنیا کے ایک کلیدی روحانی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔</p>
<p>متعدد تاریخی شواہد بنگال میں کافی پہلے ہی یعنی تیرھویں صدی کے آغاز میں ہی اسلامی صوفی تحریکات شروع ہونے کا پتہ دیتے ہیں جنھوں نے مقامی آبادی پر گہرا اثر چھوڑا۔ سیان کا کتبہ بتاریخ ۶۱۸ھ؍۱۲۲۱ئ (بنگال میں دوسرا قدیم ترین اسلامی کتبہ)صوفیوں کے لیے خصوصی طور پر وقف کردہ خانقاہ کا پہلا ریکارڈ ہے۔ یہ راڑ کے علاقے کے شمال مغرب میں لکھنور(مغربی بنگال کے موجودہ بیربھوم ضلع میں)کے ایک ابتدائی مسلم انتظامی مرکز، سے زیادہ دور نہیں تھا۔ اس کے بانی (ابن محمد المراغی) نے اپنے لیے کتبے میں ”صوفی“ یا ”شیخ“ کی جگہ جنوبی ایشیا کی ایک مشہور اصطلاح ”فقیر“ استعمال کرنے کو ترجیح دی، جو مقامی بدھ اور ہندو سنیاسی روایات میں راہب کے تصور سے زیادہ ہم آہنگی رکھتی ہے۔ عین ممکن ہے کہ سیان میں خانقاہ کا مقام بذاتِ خود کسی تباہ شدہ بدھ مت کا آشرم یا ایک ہندو مندر رہا ہو، کیونکہ اس عربی کتبہ پر مشتمل پتھر کی یہ لوح (جس کے الٹی طرف ایک سنسکرت کتبہ بھی ہے)وہاں موجود ایک مندر میں ملی۔ ان مسلمان صوفیہ کی جماعت کو ”أہل الصفۃ“ سے موسوم کیا گیا ہے، جو ہمیں نبیﷺ کے زمانے کی مدینہ کی ابتدائی روحانی برادری کی یاددلاتی ہے جنھوں نے مسجدِ نبویﷺ میں عبادت کی خاطر زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کے لیے غربت کاراستہ اختیار کیا تھا۔ کتبہ میں مذکور عمارت نے اس جماعت کے لیے بطور مسجد بھی کام دیا۔ یہ ایک ایسی روایت ہے جو اُس علاقے میں آج تک قائم ہے۔ کتبہ میں قرآنی آیت اور حدیث کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ ابتدائی صوفی شریعہ پر سختی سے کاربند تھے۔ اگرچہ یہ روایت مرورِ زمانہ میں مدھم پڑتی چلی گئی۔</p>
<p>سیان خانقاہ کے بانی کی نسبت ”المراغی“ بنگال کی طرف مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر ہجرت کی طرف اشارہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ابن محمد المراغی بحیرۂ خزر (بحیرۂ کیسپین) پر المراغہ کے قصبے سے ہجرت کر کے بنگال آئے۔ بنگال کے جنوبی ساحلی علاقوں میں موجود بحری راستوں کے ذریعے صوفیہ کی آمد کا امکان اس علاقے میں۱۲۰۵ئ میں بختیار خلجی کی کامیاب فوجی مہم سے پہلے بھی وجود رکھتا ہے۔ یاد رہے کہ وسطی ایشیاسے اس دور دراز مضافاتی علاقے میں اُن کا ورود تیرھویں صدی میں شروع ہوا جب وسطی ایشیا، خراسان، فارس اور ملحقہ علاقوں کا ایک بڑا حصہ منگول حملوں کی زد میں تھا۔ پس ان صوفیہ کی اس دور دراز زمین کی طرف ہجرت کرنے میں روحانی تڑپ کے ساتھ سماجی و معاشی عوامل نے لازماً اہم کردار ادا کیا ہوگا۔ وسطی ایشیا میں اپنے ترک منگول پیش روؤں کی طرح وہ اپنی خانہ بدوش ثقافت بھی اپنے ساتھ ضرور لائے ہوں گے۔ متعدد ابتدائی قرائن اور مقامی روایات اشارہ کرتی ہیں کہ ان کو اس علاقے میں شمالی بھارت، وسطی ایشیا یا مغربی ایشیاسے ان کے روحانی پیشواؤں کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ تب تو اس بات میں کوئی اچنبھا نہیں کہ بنگال کے صوفیہ ہر جگہ موجود اپنے مذہبی بھائیوں کی طرح ہمیشہ اپنے صلاح کاروں کے ساتھ روحانی تعلق برقرار رکھنے کے لیے پرجوش رہتے تھے۔ جب بھی ان میں سے کچھ لوگ ایک علاقے میں اپنی صوفی اخوت کی ایک توسیعی شاخ کے طور پر گئے۔ انھوں نے اس علاقے میں سکونت اختیار کرنے کے بعد وہاں اپنی بھائی چارہ تنظیم قائم کی، جس میں مرشد اور مرید کے درمیان روحانی وابستگی نے کلیدی کردار ادا کیا۔</p>
<p>سرحد بنگال کی جانب اسلامی سرگرمیوںکے آغاز کے لیے راہ ہموار کرنا ان کے لیے کبھی بھی آسان نہ تھا۔ اکثر اوقات ان کو اس دور افتادہ مضافاتی علاقے میں کئی سخت مراحل اور مشکلات سے گزرنا پڑتا۔ بسا اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ مقامی غیر مسلم حکمرانوں کے خلاف مقدس جنگ (جہاد) شروع کرنے کے کردار کے حوالے سے ان کی کئی کہانیاں سوائے مشہور اساطیر کے کچھ بھی نہیں۔ پس ایک انسان کو ان کی موت کے مدتوں بعد لکھے گئے سوانحی ادب پر نگاہ دوڑاتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے، کیونکہ ان میںاِن مصنفوں کی نیک تمناؤں اور مذہبی جذبات سے میل کھاتی مبالغہ آرائی بھی موجود ہوتی ہے، جو ان اولیائ کی کاوشوں و کامرانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے۔ مقامی روایات ان کو زندگی سے کہیں بڑی اور کرشمہ ساز شخصیات کے طور پر پیش کرنے کی خاطر ان کو مجاہد یا مذہبی جنگجو کے روپ میں بھی ڈھال دیتی ہیں، جنھوں نے علاقے میں اسلام کا جھنڈا لہرانے کے لیے مختلف قسم کی مصیبتیں جھیلیں۔ اگرچہ ایسے نظریات کی تاریخی شہادت شاید ہی کہیں ملتی ہے۔ صوفیہ کا مرکزِ نگاہ ہمیشہ نفسِ بہیمہ (دنیاوی لذات و خواہشات) کے خلاف جہادِ اکبر ہی رہا۔ اس لیے ہمیں بنگال کے معدودے چند صوفیہ ہی غازی (فاتح) یا مجاہد (مذہبی ؍دینی جنگجو)کا لقب استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ان میں سے کچھ بعض مواقع پر چند ناگزیر حالات میں جہادِ اصغر (مقدس جنگ) میں مشغول بھی نظر آتے ہیں، تاکہ اپنے مقامی حریف یعنی غیر مسلم حکومت یا جاگیردار (جیسے ظالم بادشاہ یا غاصب زمینداروں)کو اقتدار سے الگ کر سکیں۔ تاہم مقبول سطح پر ”غازی“ کا لقب کچھ مقامی پیروں کو دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مقامی روایات کے مطابق مغربی بنگال کے ضلع ہوگلی میں مندران کے گاؤں میں مدفون شاہ اسماعیل کو غازی کا لقب دیا گیا ہے۔ بہر حال نئے نئے علاقے میں منتقلی کے بعد بیشتر صوفیہ نے اپنے شاگردوں کو گھر بسانے اور گھریلو زندگی(قدیم ترکی روایت میں موجود“ کتخدا“ یا خاندانی زندگی اپنانے کا نظریہ)منتخب کرنے کی اجازت دی اور کئی صورتوں میں حوصلہ افزائی بھی کی۔</p>
<p>بنگال میں صوفیہ کی اثر اندازی صرف روحانی دائرہ اثر میں ہی نہیں، بلکہ سیاسی اور سماجی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان میں اکثرو بیشتر بلا شک و شبہ تاریخی واقعات کے سرگرم حصہ دار تھے۔ وہ عوامی زندگی، معاشرہ اور سیاسی معاملات پر گہرا اثر رکھتے تھے، کیونکہ بہر حال وہ کائنات کے روحانی واخلاقی منتظم تھے۔ کچھ واقعات میں صوفیوں کی سرپرستی اورحمایت نے کئی حکمرانوں کو ایک طرح کی مذہبی سند عطا کر دی۔ ان میں سے بعض کے بارے میں روحانی پیشواؤں نے ان کی ابتدائی زندگی میں کسی خاص نیکی کی بدولت مخصوص علاقے کی حکمرانی کی پیشین گوئی کی تھی، جیسا کہ کچھ ابتدائی ذرائع پتہ دیتے ہیں۔ متعدد قدیم مسلمان حکمرانوں نے اپنا سیاسی سفر صوفیہ سے دعا لینے کے بعد شروع کیا۔ ابن بطوطہ نے اپنے شہرۂ آفاق سفر نامہ ”رحلۃ“ میں سونار گاؤں اور سلہٹ جیسے دور افتادہ علاقوں تک میں بھی کئی مشہور و معروف مسلمان بزرگوں سے ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ وہ ”شیدا“ نامی ایک فقیر کا بھی ذکر کرتا ہے، جس نے سونار گاؤں کے حکمران فخر الدین مبارک شاہ (عہد۷۳۹۔ ۷۵۰ ھ؍ ۱۳۳۸۔۱۳۴۹ئ) کے خلاف بغاوت کی اور اس جدوجہد کے دوران مارا گیا۔ نور قطب العالم (م۔ ۱۴۵۹ئ بمطابق لوحِ قبر) جیسے صوفیہ نے اپنے وقت کی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ سحر انگیز شخصیات کے مالک بتدائی کئی فاتحین جیسے جنوب بنگال کے باگیرہاٹ میںخان جہان کو ان کی وفات کے بعد لوک داستانوں میں بتدریج پیروں کے درجے تک بلند کر دیا گیا اور ان کی قبروں کو درگاہوںمیں بدل دیا گیا۔ بعینہ دکھشن دیناج پور میں دیوی کوٹ کے قریب ایک چھوٹے سے غیر معروف گاؤں کے ایک ٹیلے کی چوٹی پر موجود بختیار خلجی کے مقبرہ کو مقامی آبادی میں مسلم اور غیر مسلم دونوں یکساں طور پر ایک مسلمان بزرگ کی درگاہ کی حیثیت سے تعظیم و احترام دیتے ہیں۔</p>
<p>صوفیہ سیاست اور معاشرے دونوں پر اثر انداز تھے اور مقتدر طبقہ نے اکثر ان کی سرپرستی کی۔ ان کی مسلسل بڑھتی ہوئی قوت اور شہرت بعض اوقات حکمران طبقہ کے ساتھ محبت و نفرت کے ملے جذبے کی طرف بھی گئی۔ سلطان سکندر شاہ دارالخلافہ میں شیخ علاؤ الحق کی بڑھتی ہوئی اثر اندازی سے اس قدر بد ظن تھا کہ اُس نے اِس بزرگ کو مشرقی بنگال میں سونار گاؤں میں شہر بدر کر دیا۔ تاہم عمومی طور پر بنگال کے مسلمان حکمران اِن صوفیہ کی بحیثیت روحانی صلاح کار عزت کرتے تھے اور ان کی نصیحتوں کو سنتے تھے، تاکہ کم از کم عوام میں اپنی مقبولیت عام کو قائم رکھ سکیں۔ ان میں سے چندنے اپنے بیٹوں کو مذہبی تعلیم کے لیے اِن کے پاس بھی بھیجا۔ مثال کے طور پر مظفر شمس بلخی نے اعظم شاہ (تقریباً ۷۹۲۔۸۱۳ھ ؍ ۱۳۹۰۔۱۴۱۰ئ) کو تعلیم دی۔ شہری مراکز اور دارالخلافوں مثلاً گوڑ، پنڈوہ اور سونار گاؤں وغیرہ میں ہمیشہ صوفیہ کی گہری وابستگی رہی، جس نے ان کو سیاسی زندگی اور شاہی خانوادے پر اثر انداز ہونے کے متعدد مواقع دیے۔ ان میں سے اکثر نے اسلامی ادب میں خاصا اثر چھوڑا۔ بعضوں نے مدارس اور ہسپتال بھی قائم کیے اور عوام الناس کی رفاہ میں مجموعی طور پر سرگرمی سے حصہ لیا۔</p>
<p>بنگال کے قدیم صوفیہ ایک طرف روحانی پیشوا ہوتے تھے اور دوسری طرف علما، محدث اور نبیﷺ کی روایات کے مستند عالم ہوتے تھے۔ بعض نے علاقے میں حدیث کی تعلیم میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ان میں سے اکثر نے علم کی متعدد شاخوں میں دلچسپی لی۔ بالخصوص علم و دانش کے تبادلے کے لیے عموماً انھوں نے فارسی زبان کو استعمال کیا۔ نتیجتاً ان کے ملفوظات اور مکتوبات جیسے اکثر تحریری کام فارسی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چونکہ اکثریت ایک مضبوط دینی تعلیم کی بنیاد بھی رکھتی تھی، اس لیے ان کی عربی پر گرفت بھی اچھی تھی۔ در حقیقت کئی حضرات نے اپنا علمی کام عربی میں بھی تالیف کیا۔</p>
<p>بنگال کے قدیم ترین اسلامی ادبی فن پاروں میں سے ایک ”حوض الحیاۃ“ (زندگی کا چشمہ)، اصلاً یوگا کے ایک سنسکرت مخطوطہ بعنوان امرت کنڈ(لافانی جھیل) کا عربی ترجمہ؛ (فارسی ترجمہآب حیاۃاوربحر حیاۃ) ایسے باہمی تعاملات کا بہت واضح انداز میں ذکر کرتا ہے۔ اس عظیم کام کا مرکزی خیال زندگی کے ایک روحانی سفر سے ترتیب پاتا ہے جو مختلف مراحل سے گزرتا ہے، اور باوجودیکہ اپنے تاثر میں ایک خواب نما تجربہ ہی رہتا ہے، جو صوفیوں کے مطابق زندگی کی اصل حقیقت ہے۔ مخطوطہ کا آغاز اس تاریخی پس منظر سے ہوتا ہے جس میں کامروپ سے ایک مشہور ہندو یوگی اور اپنے وقت کا خاصا مشہور ہندو عالم بھوجربرہمن بنگالی دارالخلافہ لکھنوتی میں علی مردان(۱۲۱۰۔۱۲۱۳ئ) عہد میں آتا ہے تاکہ اس نئی فاتح قوت کے مذہب و عقیدے کے بارے میں کھوج لگا سکے۔ جامع مسجد میں نمازِ جمعہ کے وقت اس کی ملاقات اس زمانے کے ممتاز حنفی قاضی رکن الدین سمرقندی سے ہوئی اور اس نے مذہبی امور پر گفت و شنید کی۔ بھوجر برہمن نے بالآخر اسلام قبول کیا اور مذہبی نصابات کی رسمی تربیت سے گزرنے کے بعد وہ آخر کار ایک مفتی(باقاعدہ قانونی رائے دینے کے اہل) کی سطح تک پہنچ گیا۔ اس ابتدائی ہندو مسلم تعامل میں ہندی مذہبی صحائف کو ابراہیمی روایت کے تسلسل سے آنے والی مقدس کتاب کے طور پرذکر کیا گیا ہے جو ”حوض الحیاۃ“ کی زبان کے مطابق ”دو براہما“ یا بالفاظ دیگر ”ابراہم اور موسی کے مصحف“ تھے۔ پس ہندوؤں کامقدس صحیفہ ”ویدا“ اور ساتھ ساتھ آریائی ویدی مذہب کو بہت آسانی سے بنگال کے ابتدائی مسلم علما کے ذریعے اسلامی عالمگیر منظر و تصور کَون(بالفاظِ دیگر رسالت یا وحیِ الہٰی کے تصور)کے وسیع مفہوم میں سمو دیا گیا۔ اس جذبِ باہم کے طریق کار کا بہت گہرا اثر ہوا۔ یہاں تک کہ بعض مسلم فقہا نے اس مفتوح زمین میں غیر مسلم اکثریت (بدھ مت کے پیروکاروں اور ہندوؤں)کو ”مشابہ بہ اہل الکتاب“ (ایک اسلامی ریاست میں عیسائیوں اور یہودیوں کو دیا جانے والے مقام)کا مرتبہ دے دیا، جو ذمی (ایک اسلامی ریاست میں غیر مسلم رعایا) کی حیثیت سے واضح بیان کردہ مکمل قانونی حقوق رکھتے تھے۔ بہت کم معروف مگر یہ اہم اقدام بہرحال جنوبی ایشیا کی اسلامی تاریخ میں نیا نہیں تھا۔ صوفی ادب میں اکثر اوقات ”صلحِ کل“ یا سب کے لیے امن کے نام سے پائی جانے والی یہ حکمت عملی محمد بن قاسم نے ٹھیک پانچ سو سال قبل فتح سندھ کے بعد کم و بیش اسی طرح اپنائی تھی، جس کے انجامِ کار نے اس علاقے کو مسلم اکثریتی علاقے میں بدل دیا۔ بنگال کے مسلمان علما کی جانب سے براہما کی بطور ابراہیم اور موسی نبی کی علامت کے طور پر شناخت نے دو اہم ترین مذہبی گروہوں - ہندو اور مسلمان - کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایک پُل کا کردار ادا کیا، کیونکہ ان گروہوں کو آخر کارآنے والے زمانوں میں لمبے عرصے تک ایک ساتھ رہنا تھا۔ مذہبی سطح پر باہم میل جول کے ذریعے ہندو اور مسلمان علما کے درمیان مکالمہ بین المذاہب کا آغاز ایک بہت ابتدائی مرحلے میں شروع ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان صوفیہ نے بنگال کے مشرقی اور شمال مشرقی دور افتادہ جنگلاتی علاقوں بالخصوص کامروپ اور آسام میں یوگا اور اس طرح کی دیگر تنتری (اور روحانی) ورزشوںاور طریقوں میں بہت زیادہ فاضلانہ دلچسپی لی۔</p>
<p>سلام کا پیغام مقامی آبادی میں متعارف کرانے کے لیے اور آسان کر کے پہنچانے کے لیے مقامی مذہبی امثال و تشبیہات اور استعارات کا استعمال صرف بنگال تک محدود نہ تھا، بلکہ گجرات اور ہندوستان کے دوسرے علاقے بھی اس تاریخی تجربے سے گزرے۔ اس دلچسپ خصوصیت نے ازمنۂ وسطیٰ کی مسلم بنگالی شاعری (پُوتھی) میں اپنے اظہار کی راہ ڈھونڈ لی۔ ایک خاص برہمن یوگی کا اسلام کی طرف مائل ہونے کا فعل علامتی طور پر بہت اہم ثابت ہوا، کیونکہ اس عمل نے یہ تاریخی تاثر دیا کہ مذہب تبدیل کرنے کا رجحان علاقے میں مسلمان حکومت کے ابتدائی ادوار میں ہی شروع ہو گیا تھا، اور اِس رجحان نے آبادی میں برہمنوں سے لے کر ملیچھوں تک کے تمام طبقات پر اثر ڈالا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بنگال کے اوائل عہد کے اکثرو بیشتر علما، جیسے قاضی رکن الدین سمر قندی، وسط ایشیاسے آئے تھے۔ چونکہ وہ فقہ حنفی کے پیرو کارتھے، اس لیے ان کے اثر سے بنگالی مسلم اکثریت میں حنفی فقہ کو قبولیتِ عام ملی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ برصغیر میں صرف بعض حنفی فقیہ ہی ہندوؤں کو مشابہ بہ اہل الکتاب قرار دیتے تھے، جبکہ شافعی اور دوسرے فقہی مذاہب عموماً ہندوؤں کو مشرک خیال کرتے تھے۔ فقہ حنفی (جو جلد ہی علاقے میں رائج ہو گئی)کی رواداری اور کشادہ ذہنی کے رویے کے تحت ہندو، بدھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے ساتھ مساوی سطح پر آگئے اور ہر شہری بلا تفریق مذہب قانون کی نظر میں برابری کے حقوق پانے لگا۔</p>
<p>اگر ابراہیم نخعی (جو عبد اللہ بن مسعودؓ کے مشہور شاگرد تھے اور عراق میں قاضی القضاۃ تھے) جیسے مسلم فقہا نے اسلام کے اوائل ہی سے، خصوصاً عراق میں، اور مشرق کے دوسرے مفتوحہ علاقوں میں یہی درسِ مساوات دیا، توبعض نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ارتداد جیسے ارتکاب گناہ کے لیے صرف توبہ ہی کو اس کی سزا قرار دیا۔ بلکہ بعض نے تو ارتداد کے بعد اسلام میں واپسی کے لئے کسی سزا کی بھی ضرورت کو مناسب نہ جانا۔ تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ بنگالی مسلمان ہمیشہ خراسان اورعراق کی طرف عقیدت و احترام سے دیکھتے تھے، کیونکہ فقہ حنفی کی ترویج کے یہی دو بڑے خطے تھے جسے وہ اپنی روحانی اور ذہنی جولان گاہ خیال کرتے تھے۔</p>
<p>علمااور صوفیہ دونوں ہی عوام الناس کے ساتھ قریبی تعلقات جوڑنے میں نیز دیہی اکثریت کے لیے آسان وقابلِ فہم زبان میں اسلام کا پیغام پہنچانے میں کامیاب رہےتھے۔ عموماً صوفیہ نے اسلامی معاشرے کی تشکیل میں بعض اوقات خاموشی کے ساتھ اور بعض اوقات واضح اور بین انداز سے کئی اہم کردار ادا کیے۔ فطری تقاضوں کے عین مطابق ان کی اثر اندازی کی شرح اور ان کی سرگرمی کی شدت ہر زمان و مکاں میں ایک سی نہیں رہی۔ اُن کی خاصی بڑی اکثریت نے اصلاً اسلامی معاشروں کے مرکزی دھارے میں شریعت کے پیروکار رہتے ہوئے زندگی گزاری اور علما کے ساتھ بھی ایک گہرا تعلق استوار رکھا۔</p>
<p>یہ دراصل وحدت کے بڑے تانے بانے کے اندر ثقافتی مظاہر کا علاقائی تنوع ہے جو اسلام کو ایک بھرپور، اہم اور عظیم تہذیب بناتا ہے۔ یہ اس کے بنیادی مذہبی اصولوں، زمان و مکان کی ضرورت، خیال اور حقیقت اور تغیر و ثبات کے درمیان تعامل کے تخلیقی طریقہ کار ہیں، جس نے اس تہذیب کو حتی الیوم زندہ، تاباں و دلکش اور فعال رکھا ہے۔ جب اس کا پیغام قدیم دنیا کے دور دراز کونوں میں پھیلنا شروع ہوا، تو اسلام کو دو تحدیاتی امور کا سامنا تھا: اجتماع ضدین <annotation lang="en">(Sycretion)</annotation> اورعلاقائی اظہار <annotation lang="en">(Indigenization)</annotation>۔ اگرچہ سوئِ فہم کی بنیاد پر اکثران کو مترادف تصور کر لیا جاتا ہے، لیکن کسی حد تک ان دو الفاظ کامختلف معنوی پس منظر ہے۔ علاقائی اظہار کے عمل میں جہاں بیرونی عناصر اپنے اظہار میں مقامی خصوصیات کو ڈھونڈتے ہیں، وہاں اجتماع ضدین کی اصطلاح تاریخی تناظر میں ایک عیسائی اصطلاح سے نکلی ہے، جس کا اطلاق خاص کر مخلوط زبان کی شکل میں غیر منطقی ملاپ اور متضاد عقائد کی موافقت اور معرض گفتگو میں مذکور لوگوں کی جانب سے ان کی بلا تنقید قبولیت پر ہوتا ہے۔</p>
<p>مختلف لوگوں اور گروہوں کے اسلام قبول کرنے کے عمل میں علاقائی اظہار کا ایک خاص کردار ہے جو اسلامی دنیا میں ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے، اور بنگال اس سلسلے میں مستثنیٰ نہیں ہے۔ بنگال درحقیقت باقی امت سے اپنا مضبوط بندھن قائم رکھتے ہوئے اسلامی معاشرے کی علاقائی تشکیل و تنظیم کا ایک شاندار مثالی نمونہ پیش کرتا ہے۔ علما اور صوفی شیوخ نے عمومی طور پر علاقائی اظہار کی حوصلہ افزائی کی جو کہ کسی حد تک اسلامی دعوت کو عوام کی اکثریت میں مقبول بنانے میں مددگار تھی۔ زندہ اور مقبول زبان میں مقامی گروہوں کو اسلام پیش کرنے کی کوشش میں مقامی نظام سے توافق پیدا کرنے کے لیے وہ بعض اوقات ایک خاص حد تک لچک بھی بروئے کار لائے، جس حد تک وہ بنیادی اسلامی روح کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا تھا۔</p>
<p>س کے برعکس اجتماعِ ضدین کبھی بھی علما اور صوفی شیوخ کے ہاں اس بنا پر قابلِ قبول نہیں ہوئی کہ یہ شریعت سے میل نہیں کھاتی۔ مگر وقتاً فوقتاً اس نے مقتدر مسلمان اشرافیہ کی متضمن حمایت پائی، جن میں سے اکثر بذاتِ خود وسطی ایشیاکی ساسانی بادشاہی میراث کی مخلوط روایت کے علمبردار تھے۔ لیکن جس چیز نے اجتماع ضدین نیز مخلوط روایات کو وقتاً فوقتاً مقبول بنایا، وہ پیر اور مُلا(اور دیگر مختلف ناموں سے معروف مثلاً :سابقی یا روایت پسند، بے شرع یا شریعت کے غیر مقلد، اباحی یا بے لگام)کے ایک خاص طبقے کی مصلحت پسندی کی سیاست تھی۔ ان کے اپنے ذاتی سماجی اور معاشی مفادات کے باعث وہ ہمیشہ عصری صورتحال کے دفاع کے لیے بے تاب رہتے تھے۔ یہاں اس بات کی نشان دہی اہم ہے کہ صوفی، شیخ اور پیر یا مثال کے طور پر عالم اور مُلا کے الفاظ کے معروف اور محاوراتی استعمال میں کوئی خاص فرق نہیں ہے اور اکثر یہ ایک دوسرے کے متبادل و مترادف کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ بایں ہمہ اِن دو علاحدہ علاحدہ سماجی طبقوں کا وجود بنگال میں ہمیشہ رہا، جنھوں نے اِس خطے کے عوام الناس کی مذہبی روایت پر گہرا اثر چھوڑا۔ جہاں صوفی شیوخ، اولیا اور علماکے ایک گروہ نے ہمیشہ شریعت کی پیروی کی پرزور حمایت کی، وہاں دوسرے گروہ (پیر، درویش اور مُلا کے نام سے مشہور)نے مخلوط ثقافت کے علم برداروں کی خدمت سرانجام دی۔ ایسی صورت حال میں شریعت پسند صوفیوں، شیوخ اور علما کے اوراجتماع ضدین اورپرانی روایات کا دفاع کرنے والے پیروں اور ملاؤں کے درمیان موجود مستقل تناؤ باعثِ حیرت نہیں۔</p>
<p>مختلف سلاسل(روحانی سلسلوں)کے صوفی شیوخ نے علما (منشی، مولانااور مولوی کے نام سے معروف) کی علمی قیادت کے دوش بدوش روحانی قیادت فراہم کی جن کو عموماً مذہبی پرہیزگاری اور قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا تھا۔ روایتی پیروں نے اس کے برخلاف ایک قسم کے مذہبی پیشواؤں کے طبقے (برہمن کے مماثل) کو جنم دیا جہاں پیشرویت موروثی ہوا کرتی تھی۔ خاندانی سلسلے پر مبنی قدامت پسند پیروں اورملاؤں نے بعد کے دنوں میں ترقی پسند صوفیہ اور علما کے زیرِ سرپرستی چلائی جانے والی اصلاحی تحریکات کی مزاحمت کی۔ مثال کے طور پر وہ تیتومیر کے زیرِ سرپرستی کسانوںکی اپنی بنیادی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد اور آخر کار انگریز استعماری قوت کے ساتھ ٹکراؤ اور علما کی ہمہ گیر مساوات کے قیام کی تحریکات(ابتدائی نوآبادیاتی مصنفوں کے یہاں اکثر مولوی تحریک کے نام سے مذکور)کے خلاف کھڑے ہوئے۔</p>
<p>مسلمانوں نے اس علاقے میں جیسے جیسے ایک معاشرتی اجتماع کے طور پر وسعت پکڑنی شروع کی ویسے ویسے صوفیہ کی پیشرو نسلوں کی اکثریت کی ترجیحات آہستہ آہستہ اپنے بنیادی روحانی مقصدِ اولیٰ یعنی سادہ زندگی گزارنے اور روحانی ترقی کے ہدف سے ہٹتی چلی گئیں۔ درگاہ، روضہ اور مزار کے نام سے مشہور اداروںکی بڑھتی ہوئی تعداد بنگال میں ابھرنا شروع ہوئی، جبکہ صوفیوں اور خانقاہوں کا اصلی فریضہ بالفاظ دیگر دعوت یا اسلامی پیغامات کی تبلیغ بتدریج مدھم پڑنا شروع ہو گئی۔ وقت کے ساتھ یہ درگاہیں اجتماع ضدین اور مخلوط روایات کی مشہور آماجگاہ بن گئیں، جنھوں نے عام لوگوں کو بزرگوں کی تعظیم اور مزاروں پر سجدہ ریزی کی طرف مائل کیا۔ مقتدر طبقہ اکثرمشہور بزرگوں کی قبروں پر شاندار مقبرے تعمیر کرنے کا عادی تھا، تاکہ ان کو مشہور درگاہوں میں تبدیل کر کے مقبولیتِ عام حاصل کر سکے۔ یہ درگاہیں بعدازاں ان کے انتظام و انصرام پر مامور لوگوں کی آمدنی کا ایک سود مند ذریعہ بن گئیں۔ بِہار میں مونگیر قلعہ کے جنوبی داخلے کے نزدیک شاہ نافہ کے مقبرے کی مشرقی دیوار پر نصب ایک کتبہ اشارہ دیتا ہے کہ سلطان حسین شاہ نے بزرگ کی قبر پر ایک یادگار گنبد ۹۰۳ھ؍۱۴۹۷ئ ۱۴۹۸ئ میں تعمیر کیا۔</p>
<p>اس عمل میں صوفی روایات کی اکثریت نے اخلاقی فضیلتوں اور نفس کشی کی روحانی تربیت اور ساتھ ساتھ نفسِ بہیمی اور شہوانی خواہشات پر قابو پانے (ضبطِ نفس) پر اپنی توجہ و اصرار کھو دیا۔ بالآخر مسلمان بزرگوں کا ایک نیا طبقہ (یعنی پیر) آہستہ آہستہ نمودار ہونا شروع ہوا۔ انھوں نے اَن پڑھ دیہی طبقے سے رضاکار تلاش کیے، جن کے نزدیک اسلام کا تصور زیادہ تر وحدت الوجود یا ہمہ اوست کی ایک بگڑی ہوئی شکل کا تھا۔ کئی درگاہیں فی الحقیقت پیروں کے لیے نفع بخش ذریعہ آمدنی میں بدل گئیں۔ اس نئے طبقے کو خانقاہ کی سطح سے گزر کر ’طریقۃ‘ (روحانی بھائی چارے) کے مرحلے میں جانے اور بالآخر ’طائفۃ‘ (فرقوں) تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ ان میں سے اکثر تبدیلیاں پیروں کے حکومتی انتظامیہ سے گہرے مراسم کی وجہ سے رونما ہوئیں، کیونکہ انھوں نے اپنے خودمختار مقام کی قربانی دے کر ریاست کی طرف سے ملنے والی مختلف معاشی عنایات مثلاً انعامات یا مددِ معاش (زمینوں کی ملکیت) حاصل کیں۔</p>
<p>گویا ہمیں اصلاح پسند صوفیہ ؍علما اور روایت پسند درویش یا پیروں کے مابین بدستور تاریخی نزاع کے تاریخی شواہد کثرت سے ملتے ہیں، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے گئے۔ ابتدائی صوفیہ نے عوام الناس پر زیادہ اور مقتدر طبقہ پر نسبتاً کم اعتماد کیا؛ جبکہ بعد کے ادوار میں پیر بذاتِ خود مقامی روایات بالفاظِ دیگر علاقائی مذہبی رواجوں اور روایتوں (مثلاً: بھکتی تحریکات، ہندو آشرم، مٹھ)اور ہندو مت کے گرو شاگرد کے تعلق سے متاثر ہوتے رہے۔ چند ادنیٰ طریقوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً ایک عوامی تائید یافتہ نظریۂ صلح کل (سب کے ساتھ امن ؍ ہرنظریہ و مذہب سے ہم آہنگی)کوجواز بناتے ہوئے بعض پیروں نے کئی ایسے مقامی غیر مسلم طریقوں اور روایتوں کو جذب کر نا شروع کر دیا، جنھوں نے بالآخر مختلف مسلکوں اور گروہوں کی شکل اختیار کر کے اسلامی تصوف کا اصل چہرہ چھپا دیا۔ اسی طرح بزرگوں کی تعظیم و توقیر کی اس نئی طرز کی مخلوط روایت نے صوفیہ کی جانب سے تزکیۂ نفس اور دینی پختگی جیسے انتہائی اہم کام کی اہمیت کو پس پشت ڈال دیا۔</p>
<p>خاصی دلچسپ بات یہ ہے کہ اجتماع ضدین اور مخلوط روایات ہندو اور مسلمان معاشروں کو ذرا بھی مزید قریب نہیں لائیں، جتنے وہ حقیقت میں تھے۔ مشہور بنگالی افسانہ نگار اور ادیب شرت چندرا چٹاپدھائے نے بڑے پیمانے پر پڑھے جانے والے اپنے ناولوں اور کہانیوں میں ابتدائی بیسویں صدی کے بنگالی گاؤں کے سماجی میل جول کی روایت کا المناک نقشہ کھینچا ہے جہاں اگرچہ ہندو اور مسلمان ایک ہی جگہ اور فضا میں صدیوں سے بستے رہے، لیکن اس یک جائی کے باوجود ان کے درمیان ایک نفسیاتی خطِ امتیاز ہمیشہ کھنچا رہا، جس نے ان کی مذہبی اور ثقافتی زندگی کو الگ الگ رکھا۔ اس کے باوجود چند سطحوں پر باہمی تعلق و تعامل بھی وقتاً فوقتاً ہوتا رہا۔</p>
<p>دیہی بنگال میں خانقاہ عام لوگوں پر گہرا اثر رکھتی تھی۔ خانقاہ سے وابستہ افراد بشمول غریب عوام کے، جو خانقاہ کے قرب و جوار میں رہائش پذیر تھی، بذریعۂ اوقاف بالخصوص مدد معاش (دیکھیے: بہرام سقا کتبہ بتاریخ ۱۰۱۵ھ ؍ ۰۷۔۱۶۰۶ئ) کے نام سے معروف طریقے سے سہارا پاتی تھی۔ چند خانقاہوں کے ساتھ عوامی سہولیات بھی میسر تھیں جیسے لنگرخانہ اور مفت ہسپتال وغیرہ۔ پس خانقاہوں نے مشرقی اورجنوبی بنگال کے زیریں ڈیلٹا میںنئے مسلمان گاؤںاور بستیوں کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا۔</p>
</section>
</body>
</document>