-
Notifications
You must be signed in to change notification settings - Fork 7
/
0015.xml
44 lines (44 loc) · 17.1 KB
/
0015.xml
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
<document>
<meta>
<title>فوج کی حکمرانی</title>
<author>
<name>سید منظور الحسن</name>
</author>
<publication>
<name>Mahnama Ishraq April 2007</name>
<year>2007</year>
<city>Lahore</city>
<link>http://www.javedahmedghamidi.org/#!/ishraq/5adb7356b7dd1138372dbcc6?articleId=5adb745bb7dd1138372dd8db</link>
<copyright-holder>Al-Mawrid</copyright-holder>
</publication>
<contains-non-urdu-languages>No</contains-non-urdu-languages>
</meta>
<body>
<section>
<p>ہمارے سیاسی کلچر میں فوج کی حکمرانی کو اب ایک روایت کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ سیاسی جماعتیں باہم بر سر پیکار ہوتی ہیں؛ سیاست دان ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنے سے انکار کرتے ہیں؛ سول حکومتیں بدانتظامی، عدم استحکام اور اخلاقی انحطاط کا بدترین نمونہ پیش کرتی ہیں؛ عوام الناس حکمرانوں کے آگے اپنے مسائل حل نہ ہونے کا رونا روتے ہیں؛ غیر مقبول مذہبی اور سیاسی گروہ فوج کو حکومت سنبھالنے کی پیشکش کرتے ہیں اور فوجی جنرل پوری آمادگی دل کے ساتھ اس صداے خوش نوا پر لبیک کہتے اور قوم کے مسیحا کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ وہ آئین کو بالاے طاق رکھ کر مسند اقتدار پر فائز ہوتے ہیں، اقتدار کے زیادہ سے زیادہ مظاہر کو اپنی ذات میں مرتکز کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ استحکام حاصل کر لینے کے بعداپنے اقتدار کے آئینی جواز کے لیے سرگرم عمل ہو جاتے ہیں، اقتدار کو طول دینے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور بالآخر عوام کی ناپسندیدگی کا داغ اپنے دامن پر سجا کر رخصت ہو جاتے ہیں۔ جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق نے یہی روایت قائم کی ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی اسی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔</p>
<p>فوج کے اقتدار پر قابض ہونے سے چند ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں جو ہمارے نزدیک ملک و قوم کے لیے ضرررساں ہیں۔</p>
<p>ایک مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں اس اصول پر زد پڑتی ہے جو شریعت کی رو سے مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے: ’وامرہم شوریٰ بینہم‘، یعنی مسلمانوں کا نظام ان کے باہمی مشورے پر مبنی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ریاست کی سطح پر اجتماعی نوعیت کا کوئی فیصلہ مسلمانوں کی مشاورت کے بغیر نہیں ہوگا اور اس ضمن میں ان کی رائے کو حتمی حیثیت حاصل ہو گی۔ استاذ گرامی جناب جاوید احمد صاحب غامدی لکھتے ہیں:</p>
<blockquote>
<p>”مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اساس ’امرہم شوریٰ بینھم‘ ہے، اس لیے ان کے امرا و حکام کا انتخاب اور حکومت و امارت کا انعقاد مشورے ہی سے ہو گا اور امارت کا منصب سنبھال لینے کے بعد بھی وہ یہ اختیار نہیں رکھتے کہ اجتماعی معاملات میں مسلمانوں کے اجماع یا اکثریت کی رائے کو رد کر دیں۔“ (قانون سیاست۲۶)</p>
</blockquote>
<p>دوسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے اقدامات آئین کی خلاف ورزی پر منتج ہوتے ہیں۔ ہمارا آئین درحقیقت وہ دستور العمل ہے جس کے بارے میں قوم نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنے اجتماعی امور کو اس کی روشنی میں انجام دے گی۔ اس میں ہم نے قومی سطح پر یہ طے کیا ہے کہ ہمارانظام حکومت کیا ہو گا؟ حکومت کس طریقے سے وجود میں آئے گی اور کس طریقے سے اسے تبدیل کیا جا سکے گا؟سربراہان ریاست و حکومت کس طریقے سے منتخب ہوں گے، ان کے کیا اختیارات ہوں گے اور کس طرح ان کا مواخذہ کیا جا سکے گا؟ یہ اور اس نوعیت کے بے شمار امور جزئیات کی حد تک اس دستور میں طے کیے جا چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کا سیاسی استحکام اس بات میں مضمر ہوتا ہے کہ آئین کے لفظ لفظ پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جائے۔</p>
<p>تیسرا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں جمہوری اقدار کی ترویج رک جاتی ہے۔ سیاسی عمل میں رخنہ آجاتاہے اور قومی تعمیر و ترقی کا عمل متاثر ہو جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ بات ہر لحاظ سے ثابت شدہ ہے کہ جس معاشرے میں جمہوری اقدار مستحکم ہوں گی، وہ تعمیر و ترقی کی منزلیں تیزی سے طے کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوری اقدار معاشرے کے افراد کو باشعور بناتی، ان کے اندر اعتماد پیدا کرتی اور انھیں مستقبل کی بہتری کے لیے سرگرم عمل کر دیتی ہیں۔ فوجی حکمرانوں کی آمد سے چونکہ قومی معاملات میں ان کی شرکت کا راستہ بند ہو جاتا ہے، اس لیے وہ کوئی فعال کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔</p>
<p>یہاں یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جملۂ معترضہ کے طور پر مختصراً ان اعتراضات کا جائزہ بھی لے لیا جائے جو ہمارے ہاں جمہوریت کے حوالے سے پیش کیے جاتے ہیں۔</p>
<p>ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ جمہوری نظام حکومت ان ممالک کے لیے ناموزوں ہے جہاں خواندگی کی شرح کم ہو۔ جناب پرویز مشرف صاحب نے بھی منصب صدارت پر فائز ہونے سے کچھ عرصہ پہلے اپنے ایک بیان کے ذریعے سے اسی نقطۂ نظرکا اظہار کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ:</p>
<blockquote>
<p>”پاکستان کا ماحول پارلیمانی جمہوریت کے لیے سازگار نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جس کی چودہ کروڑ آبادی میں سے ستر فی صد لوگ ناخواندہ ہیں، اس سے دنیا کیوں توقع رکھتی ہے کہ وہ مغربی طرز کی جمہوریت کا حامل ہو۔“ (روزنامہ جنگ، ۳ جون ۲۰۰۱)</p>
</blockquote>
<p>پارلیمانی جمہوریت سے مراد وہ طرز حکومت ہے جس میں پارلیمان کو ریاست کے سب سے برتر ادارے کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ ادارہ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ عوام کے یہ نمائندے اپنے اندر سے ایک وزیر اعظم کا انتخاب کرتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ذریعے سے حکومت کا نظم چلاتا ہے۔ وہ اپنے تمام اقدامات کے حوالے سے پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ ارکان پارلیمان اگر اس کی کارکردگی سے غیر مطمئن ہوں تو وہ اسے تبدیل بھی کر سکتے ہیں۔ اس نظام میں صدر کی حیثیت آئینی سربراہ کی ہوتی ہے، نظم حکومت اور قانون سازی کے معاملات میں اس کی مداخلت نہایت محدود ہوتی ہے۔</p>
<p>اس نظام جمہوریت پرمذکورہ اعتراض کے جواب میں بہت کچھ کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ دو باتیں ہی اس کی تردید کے لیے کافی ہیں:</p>
<p>ایک یہ کہ اس بات کا فیصلہ کہ اہل پاکستان کے لیے کون سا نظام درست ہے اور کون سا درست نہیں ہے، دین، اخلاق اور اجتماعی مصالح کے لحاظ سے اہل پاکستان ہی کو کرنا چاہیے۔ ۱۹۷۳ء تک اہل پاکستان دانستہ یا نادانستہ طور پر مختلف نظام ہاے حکومت کا تجربہ کر چکے تھے۔ اس موقع پر ان کے منتخب نمائندوں نے بہت سوچ بچار کے بعد پارلیمانی نظام حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی قوم اپنے اس فیصلے پر ابھی تک قائم ہے۔ اگر کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے تو انھیں رائے عامہ کو اپنے نقطۂ نظر کے حق میں ہموار کرنا چاہیے، یہاں تک کہ لوگوں کی اکثریت ان کی رائے کو اپنی رائے کے طور پر اختیار کر لے۔ رائے عامہ کی تائید کے بغیر کیا جانے والا اجتماعی اقدام کسی لحاظ سے بھی درست قرار نہیں پا سکتا۔</p>
<p>دوسری یہ کہ سیاسی شعور کے ہونے یا نہ ہونے کا تعلیم و تعلم سے کوئی ایسا گہرا تعلق بھی نہیں ہے کہ محض تعلیم کی کمی کو سیاسی شعور کی کمی پر محمول کر لیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تعلیم اجتماعی شعور کی بیداری میں معاون ثابت ہوتی ہے، مگر حقیقی معنوں میں سیاسی شعور سیاسی عمل کے تسلسل اور استحکام سے پیدا ہوتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ اس قوم میں سیاسی شعور کی ایسی کمی نہیں ہے کہ اسے حق رائے دہی سے محروم کر دیا جائے۔ ۱۹۴۷ ء میں اس قوم نے اپنے ووٹوں ہی کے ذریعے سے علیحدہ مملکت اور اس کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۶۹ء میں اس قوم نے اپنی پرزور تحریک سے جنرل ایوب خان جیسے باجبروت حکمران کو اقتدار سے علیحدہ ہو جانے پر مجبور کر دیا۔ کیا یہ سیاسی شعور کا اظہار نہیں ہے کہ اس قوم نے بتدریج مذہبی سیاست کو بالکلیہ ختم کر دیا اور ملک کو دو جماعتی نظام کی طرف گام زن کر دیا ہے؟یہ بات صحیح ہے کہ ہماری عوامی سیاست ابھی تک جاگیر داروں اور صنعت کاروں کے حصار سے نہیں نکلی، لیکن اس کی اصل وجہ عوام کی ناخواندگی نہیں، بلکہ سیاسی عمل میں بار بار آنے والا تعطل ہے۔ اگر یہ سیاسی عمل کسی انقطاع کے بغیر جاری رہے تو یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آیندہ تین چار انتخابات کے بعدشفاف نظام سیاست کے قیام اور باصلاحیت اور با کردار حکمرانوں کا انتخاب بہت آسان ہو جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے معروف محقق جناب ڈاکٹر صفدر محمود اپنی کتاب ”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں لکھتے ہیں:</p>
<blockquote>
<p>”تاریخ کے صفحات شاہد ہیں کہ پاکستان کے عوام کی سیاسی پسماندگی کا رونا ان حکمرانوں نے رویا ہے جن کی کوئی نمائندہ حیثیت نہیں تھی۔ اس بدعت کا آغاز میجر جنرل سکندر مرزا سے ہوا۔ پھر یہ روایت فیلڈ مارشل ایوب خان سے ہوتی ہوئی صدر ضیا الحق تک پہنچی، کیونکہ یہ حکمران غیرسیاسی پس منظر کے مالک اورعوام سے الرجک تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے جو حقیقی معنوں میں قوم کے قائد تھے کبھی بھی عوام کی ناخواندگی یا سیاسی پسماندگی کی شکایت نہیں کی، حالانکہ اس وقت ناخواندگی کی شرح کہیں زیادہ تھی۔</p>
<p>دنیا میں کسی ایسے ملک کی مثال نہیں ملتی جس کے عوام نے اپنے ووٹ کے تقدس کے تحفظ کی خاطر اتنی قیمتی جانوں اور املاک کا نذرانہ پیش کیا ہوجتنا پاکستانی عوام نے ۱۹۷۷ ء میں قومی اتحاد کی تحریک کے دوران پیش کیا۔ یہ حقیقت میں پاکستان کے اس عام شہری کی فتح تھی جو ہر قیمت پر جمہوریت کی بالا دستی کا خواہاں ہے۔ کیا ایک ایسی قوم کو جو اپنے ووٹ کے تقدس کا اس قدر شعور رکھتی ہے جمہوریت کے لیے نااہل قرار دینا ناانصافی نہیں ہے؟“ (۲۹۴)</p>
</blockquote>
<p>جمہوری نظام پر دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری عمل کے نتیجے میں جو سیاسی رہنما منظر عام پر آئے ہیں، انھوں نے ہمیشہ اخلاقی پستی ہی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت کی زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دیناملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ بات کچھ ایسی غلط نہیں ہے، مگر اس کا علاج قومی اداروں کا انہدام نہیں، بلکہ ان کا استحکام ہے۔ ادارے جس قدر مستحکم ہوں گے، احتساب کا نظام بھی اسی قدر بہتر ہو گا۔ اگر ہم اداروں کو ان کے بننے کے عمل سے پوری طرح گزرنے ہی نہیں دیں گے تو طالع آزما لوگ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرتے رہیں گے۔ اداروں کا استحکام بھی سیاسی عمل کے تسلسل کے بغیر ممکن نہیں۔</p>
<p>چوتھا مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے لازمی نتیجے کے طور پر عوام اپنے سیاسی مستقبل کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتے ہیں اور اجتماعی معاملات میں ان کی دل چسپی کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ صورت حال معاشرے کی صحت کے لیے کسی طرح بھی مفید نہیں ہے۔ معاشرہ اسی وقت صحیح معنوں میں ترقی کی راہ پر گام زن ہوتا ہے جب اس کا ہر فرد قومی تعمیر کے عمل میں پوری طرح شریک ہو۔ مگر جب وہ اپنے اور اپنی قوم کے مستقبل کے حوالے سے شبہات کا شکار ہو گا تو پوری دل جمعی کے ساتھ اپنا کردار ادا نہیں کر پائے گا۔</p>
<p>پانچواں مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے اقدامات کے نتیجے میں فردواحدبلا شرکت غیرے اقتدار کا مالک بن جاتا ہے۔ کوئی فرد واحد اپنی ذات میں بہت ایمان دار ہو سکتا ہے، اخلاق و کردار کے حوالے سے بہت بہتر ہو سکتا ہے، قیادت و سیادت کی بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہو سکتا ہے، سیاسی بصیرت سے بہرہ مند ہو سکتا اور قومی تعمیر کے لیے بہت متفکر ہو سکتا ہے۔ یہ تمام خصائص، بلاشبہ کسی فرد کی شخصی عظمت پر دلالت کرتے ہیں، لیکن ان سب کا کسی ایک شخص میں اجماع بھی اسے یہ اختیار نہیں دیتا کہ وہ عوام کی رائے کے بغیر مسند اقتدار پر قابض ہو جائے۔ دین و اخلاق اور عقل و فطرت کے مسلمات کے اعتبار سے اقتدار کے لیے صرف اور صرف ایک شرط ہے اور وہ رائے عامہ کی اکثریت کا اعتماد ہے۔ یہ اعتماد اگر حاصل ہے توذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف جیسے افراداپنی تمام خامیوں کے باوجود اقتدار کے حق دار ہیں اور اگر یہ اعتماد حاصل نہیں ہے تو ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے افراد اپنی تمام خوبیوں کے باوجود اقتدار کے مستحق نہیں ہیں۔</p>
</section>
</body>
</document>